ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

"جملہ حقوق محفوظ ہیں" کا کیا مطلب ہوتا ہے؟

سوال

اس جملے کا کیا مطلب ہے: "جملہ حقوق محفوظ ہیں" یہ آپ کی ویب سائٹ پر بھی موجود ہے، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ویب سائٹ یا کتاب سے میں استفادہ یا کاپی نہیں کی جا سکتی ؟

جواب کا خلاصہ

"جملہ حقوق محفوظ ہیں" کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس چیز کو ذاتی استعمال میں نہ لائیں یا اس سے اقتباس نہ لیں یا مستفید نہ ہوں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ: کسی دوسرے کی محنت پر اپنی اجارہ داری قائم نہ کریں اور اسے اپنی طرف منسوب مت کریں، یا اس کی کاپیاں  اور نقول تیار کر کے ان کی تجارت کریں اور فائدہ اٹھائیں، اور اس کیلیے اصل مالک سے اجازت بھی نہ لیں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

علمی مصنوعات، ایجادات، سافٹ وئیر، اپلیکیشن  اور تالیفات پیش کرنے والوں کی عادت ہے کہ وہ ان کے شروع میں ہی لکھ دیتے ہیں: "جملہ حقوق محفوظ ہیں"

اس عبارت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ: اس تیار کردہ چیز سے متعلقہ فکری ملکیت اور تخلیقی  حقوق اس چیز کو بنانے والے ادارے یا فرد کے نام پرمحفوظ ہیں۔

حقوق کے ساتھ دو چیزوں کا تعلق ہوتا ہے:

1- ادبی اور معنوی امور:
اس میں یہ بات آتی ہے کہ اس تیار کردہ چیز ، تالیف یا سافٹ وئیر کی نسبت اس کے مالک کی جانب کی جائے، اور اس کی نشر و اشاعت کا حق بھی اسی کو ہو، طریقہِ نشر و اشاعت ، اور اس میں ضرورت کے وقت تغیر و تبدل کا حق بھی اسی کو ہو۔

2- مالی حقوق:
کسی بھی مصنوعات اور ایجادات  کی مالی قیمت ہوتی ہے ، البتہ مالک اپنی مرضی سے لوگوں میں اسے مفت تقسیم کر سکتا ہے، اور چاہے تو اس کی قیمت بھی وصول کر سکتا ہے، چنانچہ ان کے عوض میں حاصل ہونے والی آمدنی  یا خصوصیات  پر ان کا مالک ہی حقدار ہوتا ہے۔

اسلامی فقہ اکیڈمی کی قرار دادوں میں ہے کہ:
"کمرشل نام، کمرشل عنوان، ٹریڈ مارک، تالیفات، ایجادات، یا جدت طرازی  سب ان کے مالکان کی ملکیت ہوتے ہیں، عصر حاضر کے عرف عام میں  ان کی معتبر و معتمد مالی حیثیت ہے ؛ کیونکہ ان کے مالکان نے ان پر اپنا سرمایہ صرف کیا ہوتا ہے، چنانچہ شرعی طور پر ان کے حقوق  کو مکمل تحفظ حاصل ہو گا اور ان سے ان کا یہ حق غصب کرنا جائز نہیں ہو گا"

دوم:

جملہ حقوق اگر مالکان کے نام محفوظ بھی ہوں تو اس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ اس سے اقتباس نہیں لیا جا سکتا، یا اس میں موجود علم اور اچھی چیزوں سے مستفید نہیں ہو سکتے۔

اس لیے اگر کوئی  شخص اقتباس  لے اور ان مصنوعات سے فائدہ اٹھائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ اصل مأخذ کا حوالہ ضرور دے۔

جمال الدین قاسمی  کہتے ہیں:
"تصنیف و تالیف کے میدان میں یہ بڑی ہی اہم بات ہے کہ : علمی نکات، مسائل اور فوائد قائلین کی جانب منسوب کریں، تا کہ کسی کی محنت پر اپنا نام مت لگے، اور ایسا نہ ہو کہ اونچی دکان پھیکا پکوان کا مصداق بن جائے" انتہی
" قواعد التحديث" (ص: 40)

"علمی امانت کا تقاضا  ہے کہ: کسی بھی بات کی نسبت اس کے قائل کی طرف کی جائے، جس نے جدت دی اسی  کی جانب ہی اسے منسوب کریں، ایسا نہ ہو کہ دوسروں سے فائدہ لیکر اپنی طرف اس کی نسبت کر دے؛ کیونکہ یہ چوری کی ہی ایک شکل ہے، دھوکا دہی اور ملاوٹ کی ایک قسم ہے" انتہی
ماخوذ از کتاب: " الرسول و العلم " (ص63 )

تاہم مطبوعات اور دیگر اشیا کے مالکان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ  لوگوں کو اس کی نگارشات اور تحریروں سے فائدہ اٹھانے سے روکیں، اگر کوئی روکے بھی سہی تو اس کی اس بات کا کوئی اعتبار نہیں ہو گا۔

سوم:

مالکان کے حقوق کا تحفظ  یہ تقاضا نہیں کرتا کہ آپ ان کی مصنوعات اور دیگر اشیا کو  کاپی نہیں کر سکتے یا اس کی نقل نہیں لے سکتے یا اسے ڈاؤنلوڈ نہیں کر سکتے بشرطیکہ اس سے مقصود ذاتی استعمال ہو ۔

لیکن اگر تجارتی مقاصد کیلیے  آپ ان کی نقول تیار کریں اور تقسیم کریں تو یہ حرام کام ہے؛ کیونکہ اس طرح سے مالکان کے مالی حقوق پامال ہوں گے۔

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"کیا ایسی کیسٹوں سے نقل کرنا  جائز ہے جن میں لکھا ہوتا ہے کہ "جملہ حقوق طباعت محفوظ ہیں" اور کیا اس کے حکم میں اس وقت تبدیلی آ سکتی ہے جب نقول تیار کرنے کا مقصد مفت تقسیم اور دعوتی ہو تجارتی نہ ہو؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"مجھے لگتا ہے کہ اگر ذاتی استعمال کیلیے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
لیکن اگر تجارتی استعمال کیلیے ہو ، مثلاً: اس کی نقول تیار کر کے کسی دکان پر پہنچائے  تو یہ جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس سے آپ کے بھائی کے مالی حقوق پامال ہوں گے۔

البتہ اگر کوئی طالب علم اپنے ساتھی طالب علم کی کاپی سے نقل تیار کرتا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے" انتہی
ماخوذ مختصراً از : "التعليق على الكافي لابن قدامة "(3/373) مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہ بھی پوچھا گیا:
"ایسی کیسٹوں کی نقول تیار کرنے کا کیا حکم ہے جن کے حقوق  محفوظ ہوتے ہیں؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر انسان اپنے لیے کیسٹ کاپی کرتا ہے ، تجارتی مقاصد کیلیے نہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں کوئی نقصان والی بات نہیں ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص تجارتی مقاصد کیلیے کاپی کرتا ہے اور پھر اسے پھیلاتا ہے تو یہ زیادتی ہے، بلکہ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی اپنے مسلمان بھائی کی قیمت پر قیمت لگا رہا ہے، اور ایسا کرنا حرام ہے۔" انتہی
"لقاء الباب المفتوح" (164/ 17) مکتبہ شاملہ کی خود کار ترتیب کے مطابق

پہلے شیخ سعد الحمید کا سوال نمبر: (21927) میں فتوی نقل ہو چکا ہے ، جس میں ہے کہ:
"کتاب یا سی ڈی کی کاپیاں تیار کرناتجارتی مقاصد کی غرض سے اور اس نیت سے کرنا کہ اس کے اصل مالک کو نقصان پہنچے تو یہ جائز نہیں ہے۔
لیکن اگر انسان ایک کاپی اپنے لیے تیار کرتا ہے تو امید ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہو گا، اگرچہ اس سے بھی بچنا بہتر ہے" انتہی

خلاصہ یہ ہے کہ: 
"جملہ حقوق محفوظ ہیں" کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ اس چیز کو ذاتی استعمال میں نہ لائیں 
یا اس سے اقتباس نہ لیں یا مستفید نہ ہوں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ: کسی دوسرے کی محنت پر اپنی اجارہ داری قائم نہ کریں اور 
اسے اپنی طرف منسوب مت کریں، یا اس کی کاپیاں  اور نقول تیار کر کے ان کی تجارت کریں اور فائدہ اٹھائیں، اور اس کیلیے اصل مالک سے اجازت بھی نہ لیں۔
مزید کیلیے سوال نمبر: (38847 )  کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب