اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

وہ کون سا علم ہے جس کا فائدہ مرنے کے بعد بھی ہوتا ہے؟

سوال

ایسا کون سا علم ہے جس سے فائدہ اٹھایا جائے؟ اور اس حدیث میں علم سے کون سا علم مراد ہے: (جب ابن آدم فو ت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے۔۔۔) تو کیا اس میں صرف علم شرعی مراد ہے، یا پھر اس سے دنیاوی مفید علم بھی مراد ہے؟ میں ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر ہوں مجھے اللہ تعالی نے اپنے خاص فضل سے مختلف علوم و فنون مثلاً: فزکس، فلکیات، ریاضی اور دیگر سائنسی علوم کی خاطر خواہ معلومات عطا کی ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ایک ویب سائٹ لانچ کروں اور ویڈیو لیکچرز ریکارڈ کروا کر ویب سائٹ پر ڈال دوں، تا کہ اسکول، جامعات اور دیگر تعلیمی اداروں کے طلبہ بلا معاوضہ ان سے استفادہ کر سکیں، اس سے دوہرا فائدہ ہو کہ ایک تو وہ اپنی نصابی کتب کو اچھی طرح سے سمجھ سکیں، اور دوسری جانب اللہ تعالی کے کائنات کو تخلیق کرنے اور اس کے سر بستہ رازوں سے واقف ہو سکیں، اس ویب سائٹ کو بنانے کا میرا مقصد صرف یہی ہے کہ اللہ تعالی کی خوشنودی حاصل ہو، تو کیا میرا یہ عمل بھی علم نافع کے تحت آئے گا؟ اور کیا اس کام سے مجھے مرنے کے بعد بھی فائدہ ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جب ابن آدم فو ت ہو جائے تو اس کا عمل منقطع ہو جاتا ہے، سوائے تین چیزوں کے: صدقہ جاریہ، اور علم نافع۔۔۔) کیا اس علم سے مراد علم شرعی ہے یا دنیاوی علم بھی اس سے مراد ہے؟ "

تو انہوں نے جواب دیا کہ:
"ظاہری مفہوم سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ حدیث عام ہے، ہر ایسا علم جس سے استفادہ کیا جائے تو اسے اجر ملے گا، تاہم ان تمام علوم پر شرعی علم کو فوقیت حاصل ہو گی، چنانچہ اگر ہم فرض کریں کہ کوئی انسان فوت ہو جائے اور اس نے کچھ لوگوں کو کوئی جائز فن سکھایا ہو اور سیکھنے والا اس فن سے مستفید ہو رہا ہو تو یقیناً اسے اس کا اجر ملے گا اور اسے اس کا اچھا بدلہ دیا جائے گا۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (117/ 16)

نیز آپ نے جو ویب سائٹ بنانے کا عزم کیا ہے، ان شاء اللہ یہ ایک اچھا اقدام ہو گا، اور یقینی طور پر ان چیزوں کو سیکھنا بھی امت کے لیے مفید امر ہے، بلکہ یہ فرض کفایہ میں شامل ہے، یعنی ان علوم و فنون کے اتنے ماہرین امت میں موجود ہونا ضروری ہے جن سے امت مسلمہ کی ضروریات پوری ہوں۔

اور پھر اس عزم کے ساتھ یہ چیز بھی شامل ہو جائے کہ آپ اپنے مسلمان بھائیوں کے لیے مشکلات کو آسان کریں، ان کے تعلیمی مراحل میں ان کی مدد کریں تو یہ اللہ تعالی کے ہاں بہت بڑے اجر کا باعث ہے، لہذا جب بھی آپ اللہ تعالی کے لیے نیت کو خالص کریں گے تو آپ کو ڈھیروں اجر و ثواب ضرور ملے گا، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ (7) وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ

ترجمہ: جو ذرہ برابر اچھا عمل کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا، اور جو ذرہ برابر برا عمل کرے گا وہ اسے بھی دیکھ لے گا۔[الزلزلة: 7، 8]

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے کسی مسلمان کی دنیاوی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کی، اللہ تعالی اس کی قیامت کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف دور کرے گا اور جس شخص نے کسی تنگ دست کے لیے آسانی کی، اللہ تعالی اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا اور جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی مدد فرماتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے اور جو شخص اس راستے پر چلتا ہے جس میں وہ علم حاصل کرنا چاہتا ہے تو اللہ تعالی اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے ۔۔۔) مسلم: (2699)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب