الحمد للہ.
الحمد اللہ:اگر شرعی اعتبار سے یہ چیز ثابت ہو جائے کہ مسلمانوں سے ابتدائے ماہِ رمضان کی تحدید میں غلطی ہو ئی ہے یا انتہائے رمضان میں چوک ہو گئی ہے، تو مسلمانوں پر اس غلطی کا تدارک کرنا لازمی امر ہے اور وہ اس چھوٹے ہوئے دن کا روزہ رکھیں گے۔
رؤیت ہلال میں غلطی متعدد شرعی طریقوں سے ثابت ہو سکتی ہے، مثلاً:
1- شعبان کا مہینہ تیس دنوں کا پورا ہو، پھر کوئی معتمد شخص آ کر کہے کہ میں نے تیس شعبان کی رات رمضان کا چاند دیکھا تھا، تو قاضی اس شخص کی شہادت کو تسلیم کرے گا۔
2- رمضان کے 28 روزے رکھیں اور پھر شوال کا چاند نظر آ جائے۔
جب یہ چیز ثابت ہو جائے تو پھر مسلمان اس دن کے روزے کی قضا دیں گے جس دن کا روزہ ان سے چوک گیا ہے۔
شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشہور و معروف احادیث صحیحہ میں ثابت ہے کہ: مہینہ 29 دن سے کم کا نہیں ہوتا، چنانچہ مسلمان اگر 28 دن کے روزے مکمل کرنے کے بعد ماہِ شوال کا چاند شرعی ضوابط کے مطابق دیکھ لیں تو پھر اس سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ جاتی ہے کہ مسلمانوں سے رمضان کی ابتدا میں غلطی ہوئی ہے، لہذا مسلمان ایک دن کی قضا دیں گے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ مہینہ 28 دنوں کا ہو جائے، مہینہ تو 29 یا 30 دنوں کا ہوتا ہے"
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی کی 25 ویں جلد اور صفحہ نمبر: 154-155 میں ذکر کیا ہے کہ یہ واقعہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں رونما ہو چکا ہے، کہ مسلمانوں نے 28 دن کے روزے رکھے ، تو علی رضی اللہ عنہ نے انہیں مہینہ پورا کرنے کیلیے ایک دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا تا کہ 29 دن پورے ہو جائیں" انتہی
ماخوذ از: "مجموع فتاوى شیخ ابن باز" (15/158)
اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی : (10/122) میں ہے کہ:
"سن 1404ہجری میں رمضان کا چاند سعودی عرب کے ذمہ داران کے مطابق جمعرات کی رات سے قبل شرعی طور پر نظر نہ آیا تھا، لہذا انہوں نے اس مسئلے سے متعلق صحیح احادیث پر عمل کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ شعبان کے تیس دن مکمل کئے جائیں، نیز یہ بھی اعلان کیا کہ ماہِ رمضان کے روزوں کی اس سال ابتدا جمعرات سے ہوگی۔
پھر اسی سال شوال کا چاند دیکھنے کے متعلق اجلاس بلایا تو شوال کا چاند جمعہ کی رات نظر آ گیا، پھر انہوں نے اعلان کیا کہ 1404 ہجری میں عید الفطر جمعہ کے دن ہوگی۔
لیکن اس اعلان کی وجہ سے ان کے صرف 28 روزے ہوئے، اور قمری مہینہ 28 دن کا کبھی نہیں ہوتا ، بلکہ کبھی 29 دن کا تو کبھی 30 دن کا ، جیسے کہ صحیح احادیث سے یہ چیز ثابت ہے۔
تاہم اس سے یہ معلوم ہو گیا کہ رمضان کے روزوں کی ابتدا میں غلطی ہوئی تھی، تو انہوں نے اس غلطی کا اعلان کیا، اور اپنے ذمہ سے بری ہونے اور حق کو واضح کرنے کی غرض سے اس دن کی قضا دینے کا حکم صادر کیا جس دن کا روزہ چوک گیا تھا" انتہی
دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی
شیخ عبد الله بن قعود ، شیخ عبد الله بن غديان ، شیخ عبد الرزاق عفیفی، شیخ عبد العزیز بن عبد الله بن باز
اور اگر رؤیت ہلال میں غلطی کا تصور شرعی طریقے سے ثابت نہ ہو سکے، بلکہ فلکی حساب پر اس کی بنیاد ہو ، یا چند لوگوں کا گمان ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے، اور نہ اس پر شرعی احکام مرتب ہوتے ہیں۔
واللہ اعلم.