اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

گناہ کے لیے حرام تعاون جاننے کا اصول اور ضابطہ

سوال

ایک سماجی کارکن ہے جو میرے خاندان کی صحت اور دیگر ضروریات سے متعلق معاملات میں مدد کرتا ہے، اور بعض اوقات وہ ہمیں ہماری گلی میں ہمارے گھر کی مخصوص پارکنگ کی جگہ میں گاڑی کھڑی کرنے کے لیے گزارش کر دیتا ہے تاکہ ہمارے گھر کے قریب ہی منعقد ہونے والے آسٹریلوی رگبی میچز دیکھ سکے، کیونکہ اس وقت جگہ جگہ ہجوم ہوتا ہے، اور گاڑیاں کھڑی کرنے کی جگہ نہیں ہوتی، اور ان میچوں میں کھلاڑیوں کا لباس ران کو نہیں ڈھانپتا، اس کے علاوہ چیئر لیڈنگ اسکواڈ کی موجودگی، موسیقی، شراب نوشی، اور مخلوط ماحول کی شکل میں کئی غیر شرعی امور ہوتے ہیں، اور مجھے لگتا ہے کہ اسے پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت دینے سے گناہ کرنے میں مدد کر رہا ہوں، اور میں اس کی درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ہچکچاتا ہوں کیونکہ اس نے پہلے ہماری مدد کی تھی، اور میرا اس سے تعلق پیشہ ورانہ ہے۔ تو اب میں نے سوچا ہے کہ اسے گاڑی پارک نہ کرنے دوں۔ تو اس صورت حال میں کیا طریقہ کار بہترین ہو سکتا ہے؟

میرا دوسرا سوال:

اس کا تعلق میرے رشتہ داروں میں سے ایک نوجوان سے ہے جو پڑھائی کے لیے سودی قرض لینا چاہتا ہے، اور اگر وہ قرض ایک سال کے اندر واپس نہیں کرتا تو اسے سود ادا کرنا پڑے گا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ وقت پر قرض واپس کرنے کے قابل ہو گا یا نہیں۔ لیکن غالب امکان ہے کہ وہ ادا نہیں کر سکے گا۔

اور اگر کوئی سودی قرض کے ذریعے تعلیم حاصل کر رہا ہے، تو کیا میں اسے اپنا کمپیوٹر پڑھنے کے لیے دوں یا نہ دوں؟ کیا اس صورت حال میں اس اصول پر عمل کیا جائے گا کہ : یقینی چیز لے لو اور جہاں شک ہو اس سے بچ جاؤ۔ لیکن اس اصول پر عمل کرنے سے ہمارے درمیان تصادم ہو سکتا ہے!

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

گناہ کے کام میں تعاون کرنا حرام ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
 ترجمہ: نیکی اور تقوی کے کاموں میں تعاون کرو، برائی اور زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو، تقوی الہی اپناؤ؛ یقیناً اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔[المائدہ: 2]

اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے ہدایت کی دعوت دی اسے اس ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا اور ان کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہو گی اور جس شخص نے کسی گمراہی کی دعوت دی، اس پر اس کی پیروی کرنے والوں کے برابر گناہ (کا بوجھ) ہو گا اور ان کے گناہوں میں کوئی کمی نہیں ہو گی۔) صحیح مسلم: (4831)

اس کے علاوہ اور بھی بہت سے دلائل ہیں جن میں گناہ پر تعاون کرنے والے کے لیے گناہ ثابت ہے، مثلاً: سود لکھنے والے اور دونوں گواہوں پر لعنت کی گئی ہے، اسی طرح شراب اٹھانے والے اور اسے بنانے والے پر لعنت کی گئی ہے ۔۔۔

ہر قسم کا تعاون حرام نہیں ہے، بلکہ وہ تعاون حرام ہے جس میں تعاون کا مقصد حرام کام کے لیے سہولت کاری ہو، یا براہ راست مدد ہو مثلاً: شراب اٹھا کر دینا، یا سود لکھنا وغیرہ ۔

لیکن ایسا تعاون جس کا تعلق دور کا بنتا ہو، اور ساتھ ہی تعاون کا مقصد برائی کے لیے تعاون بھی نہ ہو تو ایسا تعاون حرام نہیں ہے۔ اگر ایسا تعاون بھی حرام ہو تو لوگ بہت ہی تنگی میں پڑ جائیں گے۔

اس کی مثال یوں سمجھیں کہ: یہ بات مسلمہ ہے کہ کافروں کے ساتھ خرید و فروخت ، قرض لینا اور چیز گروی رکھنا جائز ہے۔ اس کے جواز کی دلیل صحیح احادیث میں ثابت ہے؛ حالانکہ اس میں بھی کافروں کے ساتھ تعاون موجود ہے لیکن یہ تعاون دور کا ہے کہ خرید و فروخت سے کافر کو فائدہ ہو گا اور کافر مالی طور پر مستحکم ہو گا، تو یہ کافر اسی دولت کو سود وغیرہ میں استعمال کرے گا۔ اس دور کے تعاون کے باوجود بھی شریعت نے اس کی طرف التفات بھی نہیں کیا۔

ڈاکٹر ولید منیسی جو کہ امریکہ میں اسلامی فقہا کونسل کے رکن ہیں وہ کہتے ہیں:
" 1428 ہجری بحرین میں منعقد ہونے والے پانچویں اجلاس میں اسلامی فقہا کونسل امریکہ، کے ارکان کے درمیان گناہ اور زیادتی میں مدد کرنے کے رہنما اصولوں کا موضوع ایک طویل بحث و مباحثہ کا موضوع تھا۔

اس طویل مباحثے اور مناقشے کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ: گناہ اور زیادتی میں مدد کرنے کی چار قسمیں بنتی ہیں:

1. براہ راست اور جان بوجھ کر مدد، جیسے کوئی شخص کسی کو شراب نوشی میں مدد کرنے کی نیت سے شراب دے۔

2. براہ راست لیکن ارادہ معاونت کا نہ ہو، جیسے کہ ایسی حرام چیزیں فروخت کرنا جن کا جائز استعمال نہیں ہوتا، بشرطیکہ انہیں فروخت کرتے ہوئے ان کے حرام استعمال میں اعانت کی نیت نہ ہو۔

3. تعاون کا ارادہ تو ہو لیکن بالواسطہ ہو، جیسے کوئی شخص کسی کو شراب خریدنے کے لیے پیسے دے۔ اسی میں قتل کے لیے سہولت کاری فراہم کرنا بھی شامل ہے۔

4. بالواسطہ اور غیر ارادی تعاون، جیسے کوئی شخص ایسی چیز فروخت کرتا ہے جس کو حلال اور حرام دونوں مقاصد میں استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن وہ فروخت کرتے ہوئے حرام مقاصد میں تعاون کی نیت سے نہیں فروخت کر رہا۔ بالکل اسی طرح ایک شخص نے کسی کو رقم دے دی اس کا یہ مقصد نہیں تھا کہ اس سے شراب خریدے، لیکن رقم وصول کرنے والا شراب خرید لیتا ہے تو رقم دینے والے پر کوئی گناہ نہیں ہے، جب تک حرام کام کے لیے تعاون کی نیت نہیں کرتا تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔

اسی چوتھی قسم میں یہ بھی شامل ہے کہ: مشرکوں اور فاسق مسلمانوں کے ساتھ خرید و فروخت اور کرایہ پر چیزیں دینا اور ان پر صدقہ کرنا بھی شامل ہے۔

کونسل کا یہ فیصلہ تھا کہ پہلی تین قسمیں حرام ہیں اور چوتھی قسم مباح ہے یعنی اس میں گناہ کے لیے تعاون بالواسطہ ہے اور گناہ کے لیے تعاون کی نیت میں نہیں ہے۔" ختم شد

اس چوتھی قسم سے یہ صورت مستثنی ہو گی کہ جب یقین ہو یا غالب گمان ہو کہ جس کی مدد کی جا رہی ہے وہ حلال چیز کو حرام میں استعمال کرے گا، چنانچہ یہی وجہ ہے کہ بہت سے اہل علم نے انگور کسی ایسے شخص کو فروخت کرنا حرام قرار دیا ہے جو اس سے شراب بنائے، اسی طرح خراب حالات میں اسلحہ فروخت کرنا حرام ہے، حالانکہ انگور اور اسلحہ دونوں ہی حلال اور حرام دونوں طرح استعمال کیے جا سکتے ہیں۔

اسی لیے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کوئی بھی ایسا لباس جس کے بارے میں غالب گمان ہو کہ اسے نافرمانی کے کاموں میں استعمال کیا جائے گا تو اسے ایسے شخص کو نہ تو فروخت کرنا جائز ہے اور نہ ہی اس کی سلائی کرنا جائز ہے جو اسے نافرمانی یا ظلم کے لیے استعمال کرے۔۔۔ یہی حکم ایسی چیز کے بارے میں ہے جس کا اصل حکم تو مباح ہے لیکن اسے علم ہو گیا ہے کہ وہ اسے نافرمانی کے لیے استعمال کرے گا۔" ختم شد
"شرح العمدة" (4/386)

آپ کے سوال کو دیکھتے ہیں تو اس سماجی کارکن کے ساتھ براہ راست تعاون یا قریب ترین تعاون اس شکل میں ہوتا جب اسے کوئی اپنی گاڑی سے میچ کی جگہ پہنچاتا، یا میچ کی انٹری ٹکٹ کاٹ کر دیتا یا اسی طرح کا کوئی کام کرتا تو تب ممنوعہ تعاون ہوتا۔

جبکہ محض گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت دینا تو اس کا تعلق گناہ کے کام سے دور کا ہے، پھر گاڑی کھڑی کرنے کی اجازت دینے اور گناہ کے کام میں کوئی تلازم بھی نہیں ہے؛ کیونکہ ایسا ممکن ہے کہ گاڑی کھڑی کر کے وہ میچ دیکھنے جائے ہی نہ، اور اگر جائے بھی سہی تو ستر پر نظر پڑنا، یا حرام مخلوط ماحول جیسا کوئی حرام کام اس سے سر زد نہ ہو۔

تو بنیادی طور پر یہاں نافرمانی کے لیے جانا، اور کسی مباح کام کے لیے جانا کہ اس کے ساتھ نافرمانی کا کام ہونے کا بھی امکان ہو ان دونوں میں فرق کرنا چاہیے۔ فقہائے کرام نے بھی ان میں فرق کیا ہے، چنانچہ ایک شخص گھر مے خانہ بنانے کے لیے کرائے پر لیتا ہے، اور ایک شخص شرعاً مباح رہائش کے لیے لیتا ہے لیکن دوران رہائش شراب بھی پیے گا، تو ان دونوں میں سے پہلا عمل ناجائز ہے جبکہ دوسرا جائز ہے۔

یہاں یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ براہ راست اور بالواسطہ تعاون میں اسی طرح قریبی اور دور کے تعاون میں تفریق کرتے ہوئے اختلاف رائے پیدا ہو جائے کہ کسی کے ہاں تعاون قریبی ہو اور کسی کے ہاں دور کا تو اس حوالے سے فقیہ آدمی درست موقف اپنانے کی کوشش کرے اور فقہائے کرام کی ذکر کردہ مثالوں سے رہنمائی حاصل کرے۔

یہاں خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
اس سماجی کارکن کو اپنی گاڑی آپ کی پارکنگ میں کھڑی کرنے کی اجازت دینا گناہ کے لیے براہ راست تعاون یا قریبی تعاون میں نہیں آتا، یہاں گناہ سے مراد میچ کی جگہ پر ستر پر نظر پڑنا، یا گانے سننا یا اس کے علاوہ گراؤنڈ میں پائی جانے والے غیر شرعی امور ہیں۔ یہاں اگر تعاون ہے تو اس سماجی کارکن کے ساتھ ہے، اور اس تعاون کی نظیر اسے کھانا، پینا اور لباس فروخت کرنے کی ہے، اسے یہ چیزیں فروخت کرنا اس وجہ سے بھی حرام نہیں ہو سکتا کہ انہیں استعمال کر کے قوت حاصل کرے گا، یا اس کی صحت برقرار رہے گی اور وہ نافرمانی والا کام کر سکے گا؛ کیونکہ یہ دور کا غیر مقصود تعاون ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ نے پہلے ملاحظہ کیا کہ شریعت نے کافر کے ساتھ تجارتی لین دین کو جائز قرار دیا ہے۔

دوم:
آپ نے اپنے رشتہ دار کو انٹری ٹیسٹ اپنے کمپیوٹر پر دینے دیا، اس میں کوئی حرج نہیں ہے اگرچہ اس نے سودی قرض کے ذریعے تعلیم حاصل کرنا شروع کی ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی تعلیم بذات خود جائز ہے، اور آپ اسے تعلیم کے لیے تعاون پیش کر رہے ہیں، قرض حاصل کرنے کے لیے نہیں!

ہاں آپ کا کمپیوٹر سودی قرض کے حصول کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس میں سودی لین دین کے لیے تعاون ہے جو کہ گناہ ہے۔

یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر کوئی شخص سودی قرض لے تو یہ رقم اس کی ملکیت میں شامل ہو جاتی ہے اگرچہ اسے گناہ ہو گا، لہذا اس سودی رقم کو کھانے، پینے، رہائش، اور پڑھائی وغیرہ میں استعمال کرنا جائز ہے، اس پر اس سودی رقم سے چھٹکارا حاصل کرنا لازم نہیں ہے۔

لہذا آپ کے اس رشتہ دار کی مباح تعلیم کے لیے تعاون کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

سوم:
اس وقت قرض حسنہ لینا حرام ہو گا جب ادائیگی میں تاخیر کی صورت پر جرمانہ عائد کیا جائے؛ کیونکہ اس میں سود تسلیم کرنا لازم آتا ہے اور عملا سود میں ملوث ہونے کا احتمال ہے۔

چنانچہ رابطہ عالم اسلامی کے تحت اسلامی فقہ کونسل کی مکہ میں منعقد ہونے والے 8 ویں اجلاس کی قرار داد میں ہے کہ:
"جب قرض خواہ مقروض پر شرط لگائے ، یا اس پر لازم قرار دے کہ اگر ادائیگی کے دو طرفہ متفقہ وقت سے تاخیر ہو تو اس پر مقررہ رقم یا تناسب میں جرمانہ ہو گا تو یہ شرط لگانا یا لازم قرار دینا باطل ہے۔ اسے پورا کرنا ضروری نہیں ہے، بلکہ جائز ہی نہیں ہے چاہے یہ شرط بینک کی جانب سے لگائی جائے یا کوئی اور لگائے؛ کیونکہ یہ بعینہ وہی سود ہے جس کی حرمت قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے۔" ختم شد

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب