الحمد للہ.
فرض روزے کے صحیح ہونے کیلیے فجر سے پہلے رات کے وقت ہی نیت کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جو شخص فجر سے پہلے روزے کا پختہ ارادہ نہ کرے تو اس کا روزہ نہیں ہے)
ابو داود : (2454) ، ترمذی: (730) اور نسائی: (2331) نے اسے روایت کیا ہے۔
اور نسائی کی ایک روایت میں ہے: (جو شخص فجر سے پہلے رات کے وقت روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ نہیں ہے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے "صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔
لہذا جو شخص فجر کے طلوع ہونے کے بعد بھی روزہ رکھنے یا نہ رکھنے میں متردد ہو تو اب اس کا روزہ رکھنا صحیح نہیں ہو گا۔
چنانچہ "اسنى المطالب" (1/411) میں ہے کہ:
"روزے کیلیے پختہ اور معین دن کی نیت ہونا لازمی امر ہے جس طرح نماز کی [معین وقت کے ساتھ ]نیت ضروری ہوتی ہے، نیز حدیث میں بھی ہے کہ: (اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہوتا ہے)۔۔۔ [واجب روزے کی ] تمام صورتوں میں طلوعِ فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری ہے، چاہے روزے نذر کے ہوں یا قضا یا کفارے کے" انتہی
اسی طرح شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کسی کو روزہ نہ رکھنے کی شرعی اجازت ہو اور وہ یکم رمضان کو کہے: مجھے صبح روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کی اجازت ہے، لیکن طلوعِ فجر کے بعد وہ روزے کی نیت کر لیتا ہے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہو گا؛ کیونکہ اس کی نیت پختہ نہیں تھی" انتہی
"الشرح الممتع" (6/362)
اس بنا پر : اس دن کے روزے کی قضا آپ کے ذمے ہے اور آپ نے روزہ رکھ کر اچھا کیا۔
آپ پر کفارہ لازمی نہیں ہے؛ کیونکہ کفارہ صرف اس وقت لاگو ہوتا ہے جب کوئی مقیم شخص رمضان میں دن کے وقت جماع کر لے۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (49750) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اور اگر آپ کی بہن نے بھی تردد کی حالت میں ہی روزہ رکھا تھا تو اس پر بھی اس روزے کی قضا لازمی ہے، اور آپ انہیں یہ بتلا دیں۔
واللہ اعلم .