اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

حج اور عمرے کے افعال اور ان کی ترتیب کی حکمتیں

سوال

میں حج اور عمرے کے تمام افعال کی حکمت جاننا چاہتا ہوں کہ انہیں بجا لانے کے پیچھے کیا حکمت کار فرما ہے؟ پھر ان کی اس مخصوص ترتیب میں کیا حکمت پنہا ہے؟ کیونکہ میں حج اور عمرے کا ارادہ رکھتا ہوں، لیکن میں چاہتا ہوں کہ حج و عمرے کی سعادت حاصل کرنے سے پہلے اس کی تیاری کروں اور مکمل توجہ اور فہم کے ساتھ ان کے ارکان سر انجام دوں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

حج اور عمرے کو شریعت کا حصہ بنانے کی حکمت کے حوالے سے وحی نے رہنمائی کی ہے، اور اس کا اجمالی بیان اللہ تعالی کے اس فرمان میں موجود ہے:

وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ، لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ عَلَى مَا رَزَقَهُمْ مِنْ بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ، ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ، ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ حُرُمَاتِ اللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ الْأَنْعَامُ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ
ترجمہ: اور لوگوں میں حج کی منادی کر دے لوگ تیرے پاس پیادہ بھی آئیں گے اور دبلے پتلے اونٹوں پر بھی دور دراز کی تمام راہوں سے آئیں گے [27] اپنے فائدے حاصل کرنے کے لیے حاضر ہوں اور ان مقررہ دنوں میں اللہ کا نام پالتو چاپایوں پر لیں، پس تم خود بھی کھاؤ اور بھوکے فقیروں کو بھی کھلاؤ۔ [28]پھر وہ اپنا میل کچیل دور کریں اور اپنی نذریں بھی پوری کریں اور اللہ کے قدیم گھر کا طواف کریں ۔ [29] یہ جو کوئی اللہ کی حرمتوں کی تعظیم کرے تو اس کے لیے اس کے رب کے پاس بہتری ہے۔ اور تمہارے لیے چوپائے جانور حلال کر دئیے گئے بجز ان کے جو تمہارے سامنے بیان کیے گئے ہیں پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے اور جھوٹی بات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ [الحج: 27 - 30]

-تو حج اور عمرے کے افعال اللہ تعالی کی وحدانیت کے اظہار کے لیے بجا لائے جاتے ہیں کہ دوران حج و عمرہ انسان غیر شرعی چیزوں سے دور رہتا ہے، انہی غیر شرعی چیزوں میں شرک کی تمام تر انواع و اقسام ، ہر درجے کے شرک اور شرکیہ مظاہر سے انسان بچتا ہے، پھر حج اور عمرہ صرف اور صرف اللہ تعالی کے لیے بجا لایا جاتا ہے، اسی لیے اللہ تعالی نے حکم دیتے ہوئے فرمایا:
وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّه
 ترجمہ: اللہ کے لیے حج اور عمرہ مکمل کرو۔[البقرۃ: 196]

اسی طرح سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حج کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: (۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عقیدہ توحید کا اقرار کرتے ہوئے تلبیہ کہا: { لَبَّيْكَ اللهُمَّ، لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ، وَالْمُلْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ} یعنی: یا اللہ! میں حاضر ہوں، میں بار بار حاضر ہوں، میں حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں ہے، میں تیری بارگاہ میں حاضر ہوں۔ یقیناً ہر قسم کی حمد کا تو ہی حقدار ہے اور سب نعمتیں تیری طرف سے ہیں، بادشاہت صرف تیری ہی ہے اور تیرا کوئی شریک نہیں ہے۔) مسلم: (1218)

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حج کا معاملہ ہی کچھ اور ہے، اس کی انتہا تک ہر کوئی نہیں پہنچ سکتا صرف وہی پہنچ سکتے ہیں جنہوں نے حب الہی کا کچھ حصہ حاصل کر لیا ہو۔ حج کا معاملہ لفظوں میں بیان کرنے سے کہیں بڑا ہے، اور اس انداز سے حج صرف اسی دین حنیف کا خاصہ ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کے فرمان: حُنَفَاءَ لِلَّهِ کا ایک معنی یہ کیا گیا ہے کہ اللہ کے لیے حج کرنے والے۔ [یعنی حنیف کا معنی ہے ہر قسم کے شرک سے دور اور صرف توحید کے لیے یکسو ، جس کا عملی مظہر حج کی صورت میں ہوتا ہے۔ مترجم]

اللہ تعالی نے اپنے گھر بیت اللہ الحرام کو لوگوں کی بقا کا ذریعہ بنایا ہے، یہی بیت اللہ ہی سارے جہان کے لیے ستون کا کام کرتا ہے اسی پر سارے جہان کی عمارت کھڑی ہے، چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے مطابق اگر کسی سال میں لوگ بالکل حج نہ کریں تو آسمان زمین پر آ گرے۔ تو بیت اللہ الحرام سارے جہان کی بقا کا ذریعہ ہے، اس لیے اس وقت تک یہ جہان باقی رہے گا جب تک اس بیت اللہ کا حج ہوتا رہے گا۔

حج ، دین حنیف کا خاصہ ہے۔۔۔ کیونکہ حج کی بنیاد ہی خالص توحید اور بالکل صاف ستھری محبت پر ہے۔" ختم شد
"مفتاح دار السعادة" (2 / 869)

الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حج آغاز سے انتہا تک سارے کا سارا ہی عقیدہ توحید اور دین پر استقامت اختیار کرنے کی دعوت ہے، اسی طرح اللہ تعالی کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو عطا کردہ دین پر ثابت قدمی کی دعوت ہے۔ لہذا حج کا سب سے بڑا ہدف یہ ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالی کی توحید اور اخلاص عملی طور پر سمجھائے جائیں اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو حج اور دیگر عبادات سے متعلقہ جن ہدایات اور تعلیمات کو دے کر بھیجا گیا ہے ان کا اتباع کرنے کی عملی تربیت ہو۔

یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی حاجی یا معتمر شخص تلبیہ کہتا ہے کہ: { لَبَّيْكَ اللهُمَّ، لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ } وہ در حقیقت اللہ تعالی کی وحدانیت اور اللہ کے لیے مخلص ہونے کا اعلان کرتا ہے، یہ بھی اعلانیہ مانتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا کوئی شریک نہیں ہے، یہی چیز طواف میں بھی ہوتی ہے کہ دوران طواف اللہ کا ذکر، تعظیم الہی، اور طواف کے ذریعے صرف اسی کی بندگی بجا لاتا ہے، پھر جب سعی کرتا ہے تو سعی میں بھی صرف اللہ تعالی کی عبادت کرتا ہے، اللہ کے سوا ہر ایک کی عملی نفی کرتا ہے، پھر جب بال مونڈوانے یا کتروانے کی باری آتی ہے تو تب بھی اللہ کی بندگی بجا لاتا ہے۔ پھر اگر ہدی یا قربانی پیش کرے تو تب بھی صرف ایک اللہ کی بندگی کرتا ہے۔ ایسے ہی عرفات ، مزدلفہ اور منی وغیرہ میں جتنے بھی اذکار ہیں سب کے سب اللہ کا ذکر ہیں، ان میں اللہ تعالی کی وحدانیت کا اقرار ہے، یہ اذکار تمام انسانوں کے لیے حق بات کی دعوت اور لوگوں کے لیے رہنمائی کا باعث ہیں، یہ اذکار بھی تمام لوگوں سے اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ صرف ایک اللہ کی بندگی کریں، پھر ایک اللہ کی بندگی کے لیے ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا ملا کر باہمی تعاون کی فضا پیدا کریں اور اسی کی ایک دوسرے کو تلقین بھی کریں۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ابن باز" (16 / 186 – 187)

-حج ذکر الہی بجا لانے کے لیے کیا جاتا ہے، چنانچہ حج کے تمام افعال میں اللہ تعالی کا ذکر پایا جاتا ہے، جیسے کہ اس آیت کریمہ میں موجود ہے:
وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ ترجمہ: اور اللہ کے نام کا معلوم دنوں میں ذکر کریں۔[الحج: 28]

اسی طرح اللہ تعالی کا فرمان ہے:
ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ ،فَإِذَا قَضَيْتُمْ مَنَاسِكَكُمْ فَاذْكُرُوا اللَّهَ كَذِكْرِكُمْ آبَاءَكُمْ أَوْ أَشَدَّ ذِكْرًا
 ترجمہ: پھر تم وہاں سے واپس آؤ جہاں سے لوگ واپس آتے ہیں، اور اللہ تعالی سے بخشش طلب کرو؛ یقیناً اللہ تعالی بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے، پس جب تم اپنے مناسک مکمل کر لو تو اللہ کا ذکر ایسے کرو جیسے تم اپنے آبا کا کرتے ہو، یا اس سے بھی زیادہ اللہ کا ذکر کرو۔[البقرۃ: 198 - 199]

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ذکر ِ الہی حج کی روح ہے، یہی حج کا مقصود و مطلوب ہے، جیسے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً بیت اللہ کا طواف ، صفا مروہ کے درمیان سعی اور جمرات پر کنکریاں مارنا صرف اللہ تعالی کے ذکر کے لیے شریعت میں رکھے گئے ہیں۔) " ختم شد
"مدارج السالكين" (4 / 2537)

اسی طرح الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ذکرِ الہی حج اور عمرے کے ان مجموعی فوائد میں شامل ہے جن کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے: لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَعْلُومَاتٍ یعنی : انہیں چاہیے کہ اپنے فوائد سمیٹنے کے لیے حاضر ہوں اور معلوم دنوں میں اللہ تعالی کا ذکر کریں۔ تو یہاں پر ذکر کا حصولِ فوائد پر عطف در اصل خاص کے عام پر عطف سے تعلق رکھتا ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی یہ ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً بیت اللہ کا طواف ، صفا مروہ کے درمیان سعی اور جمرات پر کنکریاں مارنا صرف اللہ تعالی کے ذکر کے لیے شریعت میں رکھے گئے ہیں۔)

اسی طرح ہدی کا جانور ذبح کرتے ہوئے بھی اللہ کا ذکر کرنا شریعت میں شامل ہے، ایسے ہی جمرات کو کنکریاں مارتے ہوئے ذکر کرنا بھی شریعت کا حصہ ہے، یعنی مناسک حج کا ہر عمل اللہ کا قولی یا عملی ذکر ہے، لہذا سارے کا سارا حج ہی قولی یا عملی اللہ کے ذکر پر مشتمل ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و مقالات ابن باز" (16 / 185 - 186)

-حج اور عمرے میں حجاج اور معتمرین حضرات کے دینی اور دنیاوی متعدد فوائد ہیں، اسی طرح اہل حرم اور مقیم افراد کو بھی حج اور عمرے سے دینی و دنیاوی فائدہ ہوتا ہے، ان تمام فوائد کی طرف اللہ تعالی کے فرمان: { لِيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ } میں اشارہ موجود ہے۔

چنانچہ الشیخ عبد الرحمن السعدی رحمہ اللہ آیت کے اس حصے کے بارے میں کہتے ہیں:
"یعنی: بیت اللہ کی بدولت افضل ترین عبادات، اور ایسی عبادات پائیں جو یہاں کے علاوہ کہیں نہیں ہو سکتیں۔ اسی طرح دنیاوی فوائد بھی پائیں کہ لوگوں کے آنے سے تجارتی سرگرمیاں تیز ہوتی ہیں، یہ سب چیزیں سب کے مشاہدے میں موجود ہیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔" ختم شد
"تفسیر السعدی" (ص 536)

انہی فوائد میں یہ بھی شامل ہے کہ پوری دنیا کے مسلمان یہاں اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دوسرے سے تعارف بھی کرتے ہیں، پھر باہمی علمی، تجارتی اور دیگر مفید امور کا تبادلہ بھی ہوتا ہے، پھر سب کے سب ایک ہی حالت اور مظہر میں نظر آتے ہیں اور سب کا اس سفر میں ایک ہی مقصد ہوتا ہے جس کی بدولت میں اتحاد امت کا عملی منظر سامنے آتا ہے۔

-مسلمان ایک ہی وقت، جگہ ، کام اور حالت میں ایک ہی مقصد کے لیے یک بارگی اکٹھے ہوتے ہیں ، یعنی مشاعر مقدسہ میں وقوف کا وقت ایک ہی ہے، ان کا کام بھی ایک ہے، ان کی حالت بھی ایک ہے، ان کا لباس میں ایک چادر اور تہہ بند کی صورت میں یکساں ، اور سب کے سب بار گاہ الہی میں خشوع و خضوع کے ساتھ ہیں۔

-واجب اور مستحب ہدی کے جانوروں کو ذبح کرنے سے اللہ تعالی کی تعظیم کا ایک اور منظر سامنے آتا ہے پھر انہی ذبح شدہ جانوروں کے گوشت کو کھانے، تحفہ دینے اور غربا میں تقسیم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
دیکھیں: "مجموع فتاوى ورسائل العثيمين" (24 / 241)

دوم:

حج اور عمرے کے افعال میں مخصوص ترتیب کی حکمت کے بارے میں یہ ہے کہ ان کی ترتیب میں حکمت بھی بالکل واضح ہے:

چنانچہ حج اور عمرے کا آغاز تلبیہ اور احرام سے ہوتا ہے، ان دونوں اعمال کے ذریعے مسلمان حج یا عمرے کی عبادت میں داخل ہونے کا اعلان کرتا ہے، اور پھر ان کے تقاضوں کو بجا لاتا ہے، پھر جب مکہ پہنچ جائے تو سب سے پہلے طواف کرتا ہے؛ کیونکہ بیت اللہ کا مقام حرم میں سب سے زیادہ ہے، اور طواف حج یا عمرے کا اہم ترین رکن ہے، اس لیے کسی اور عمل سے پہلے اسی عمل کو کرنا مناسب ہوا ، پھر جب بیت اللہ سے متعلقہ اعمال سے فراغت پا لی تو اب مناسب یہ تھا کہ دیگر اعمال کی طرف انسان منتقل ہو، یعنی صفا مروہ کی سعی کرے؛ کیونکہ صفا مروہ کی سعی بیت اللہ کے قریب ترین جگہ پر ہوتی ہے، پھر اس کے بعد منی میں رات گزاری جاتی ہے؛ کیونکہ یہ حج کے سب سے اہم ترین رکن کی ادائیگی کے لیے تیاری کا حصہ ہے، یعنی منی میں رات وقوف عرفات کے لیے گزارتے ہیں، پھر اس کے بعد مزدلفہ میں رات گزاری جاتی ہے کیونکہ حج کے بقیہ اعمال مکمل کرنے کے لیے وقوف عرفات سے واپسی کے وقت راستے میں مزدلفہ ہی آتا ہے، اس لیے مناسب تھا کہ حجاج یوم النحر یعنی دس ذو الحجہ کے اعمال کے لیے تیاری کی غرض سے یہیں پر آرام کریں، پھر اگلے دن جمرات کو کنکریاں مارنی ہوتی ہے جو کہ مزدلفہ کے ساتھ منی میں واقع ہیں، پھر اسی دن بال منڈوائے جاتے ہیں اور حج کی قربانی کی جاتی ہے؛ کیونکہ آج کا دن عید کا دن بھی ہے، پھر اس کے بعد حج کے اہم ترین ارکان کے مکمل ہونے پر کعبہ کا طواف کیا جاتا ہے، اس کے بعد پھر منی میں رات گزاری جاتی ہے ، اور منی ہی وہ جگہ ہے جہاں پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہدی کے جانور ذبح کیے تھے، اس لیے مناسب تھا کہ حاجی ایام تشریق یہیں پر گزارے، اور یہاں ٹھہرتے ہوئے اللہ تعالی کا ذکر کرے، نیز قربانیاں کرے ، خود بھی کھائے اور تقسیم بھی کرے۔

سیدنا نُبیشہ ہذلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایام تشریق کھانے اور پینے کے دن ہیں۔) ایک اور روایت کے مطابق : (اللہ کے ذکر کے دن ہیں۔) مسلم: (1141)

یہی وجہ ہے کہ ان دنوں میں روزے رکھنا منع ہے، صرف اسی شخص کو روزے رکھنے کی اجازت ہو گی جس کے پاس ہدی کا جانور نہیں تھا۔

جیسے کہ سیدنا عروہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے جبکہ سیدنا سالم سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ دونوں نے کہا: (ایام تشریق میں انہیں روزے رکھنے کی رخصت نہیں دی گئی، صرف اسی کو روزے رکھنے کی اجازت ہے جس کے پاس ہدی نہ ہو۔) بخاری: (1997)

پھر طواف وداع کے لیے حجاج کرام مکہ مکرمہ آتے ہیں اور پھر مکہ سے اپنے اپنے علاقوں کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔

ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حج اور عمرے کی عبادت میں پنہا راز کہ اس میں احرام پہننا لازمی ہے، معتاد سرگرمیوں سے دوری لازم ہے، سر کو کھلا رکھنا ہے، عمومی لباس نہیں پہننا، طواف کرنا، عرفات میں وقوف کرنا ہے، جمرات کو کنکریاں مارنی ہیں، اور دیگر حج کے اعمال بجا لانے ہیں، ان سب کی خوبصورتی اور جمال کی گواہی ہر عقل سلیم اور فطرت نے دی ہے، اور انہیں یقین ہے کہ جس نے یہ اعمال فرض قرار دیئے ہیں اس کی حکمت سے بڑھ کوئی حکمت نہیں ہو سکتی۔" ختم شد
"مفتاح دار السعادة" (2 / 869)

کچھ اہل علم نے حج کے کچھ افعال اور اعمال کی تفصیلی حکمتیں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے، چنانچہ اس حوالے سے کچھ امور درج ذیل ہیں:

سلا ہوا لباس نہ پہننے کی حکمت:

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"حجاج کو اللہ تعالی نے سلا ہوا لباس پہننے سے کیوں منع کیا ہے؟ اس میں کیا حکمت ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا:

اول: اللہ تعالی نے مکلف لوگوں میں سے حج کی استطاعت رکھنے والوں پر زندگی میں ایک بار حج فرض قرار دیا ہے، بلکہ اسے اسلام کے ارکان میں بھی شامل فرمایا؛ کیونکہ حج مسلمہ طور پر دینی شعائر میں شامل عبادت ہے۔ اس لیے مسلمان پر لازم ہے کہ اللہ تعالی کے فرض کردہ فریضے کو اللہ تعالی کی خوشنودی اور اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل کے لیے ادا کرے، اور امید رکھے کہ اللہ تعالی اسے اجر سے نوازے گا اور اپنے عذاب سے بچائے گا۔ ساتھ میں یہ بھی مکمل یقین ہو کہ اللہ تعالی کے تمام احکامات اور افعال حکمت سے بھر پور ہوتے ہیں، اور چونکہ اللہ تعالی اپنے بندوں پر رحم کرنے والا ہے اس لیے بندوں کے لیے وہی کام شریعت میں شامل فرماتا ہے جو لوگوں کے مفاد میں بہتر ہو، اس کام کی بدولت دنیا و آخرت میں بندوں کا ہی فائدہ ہو، لہذا شریعت میں افعال کو شامل کرنا ہمارے مالک اور حکمت والے اللہ کا کام ہے، اور بندوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اللہ تعالی کے احکامات کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی تعمیل کرے۔

دوم:
حج اور عمرے میں سلے ہوئے لباس کو اتارنے کی کئی حکمتیں ہو سکتی ہیں، ان میں سے چند یہ ہیں کہ: لوگوں کو قیامت کے دن کی یاد دہانی ہو؛ کیونکہ قیامت کے دن لوگوں کو برہنہ اور ننگے پیر اٹھایا جائے گا اور پھر انہیں لباس مہیا کیا جائے گا۔ اس طرح آخرت کی یاد دہانی میں لوگوں کے لیے نصیحت بھی ہے اور عبرت بھی ہے۔ ایسے ہی سلا ہوا لباس اتروانے کا مقصد یہ ہے کہ انسانی نفس کا سر نگوں کیا جائے اور اسے بتلایا جائے کہ یہاں عاجزی اور انکساری کے ساتھ چلنا واجب ہے، لہذا تکبر نامی کوئی چیز دل میں نہیں ہونی چاہیے۔

ایسے ہی بغیر سلے لباس کی وجہ سے مسلمانوں میں باہمی قربت، یکسانیت اور پراگندگی پائی جاتی ہے، انسان ناراضی کا باعث بننے والی عیش پرستی سے دور ہوتا ہے، دو چادریں زیب تین کرنے سے فقرا اور مساکین کی دلجوئی ہوتی ہے ۔۔۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے مقاصد ہیں جو کہ حج وغیرہ کی ادائیگی کے لیے متعین کیے گئے طریقے سے مطلوب ہیں، انہی کے لیے اللہ تعالی نے حج کا خاص طریقہ مقرر فرمایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے امت کو سکھایا۔

دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات
عبد اللہ بن قعود، عبد اللہ بن غدیان، عبد الرزاق عفیفی، عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز" ختم شد
فتاوی دائمی فتوی کمیٹی: (11 / 179 – 180)

طواف اور حجر اسود کو بوسہ دینے کی حکمت:
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طواف کی حکمت تو نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائی ہے کہ: (یقیناً بیت اللہ کا طواف ، صفا مروہ کے درمیان سعی اور جمرات پر کنکریاں مارنا صرف اللہ تعالی کے ذکر کے لیے شریعت میں رکھے گئے ہیں۔) لہذا بیت اللہ کے ارد گرد چکر لگانے والا شخص اپنے دل سے اللہ تعالی کی تعظیم کر رہا ہوتا ہے، اور یہ شخص عملی طور پر اللہ کا ذکر کر رہا ہے، لہذا چلتے ہوئے حرکت کرنا، بوسہ لینا، حجر اسود کا استلام کرنا، رکن یمانی کا استلام کرنا، اور حجر اسود کی طرف اشارہ کرنا وغیرہ یہ سب کام اللہ تعالی کا ذکر ہیں؛ کیونکہ یہ اللہ تعالی کی عبادت میں شامل ہیں؛ ذکر کا اگر عمومی معنی مراد لیں تو ہر عبادت اللہ کے ذکر میں شامل ہے؛ جبکہ زبان سے ادا کی جانے والی تکبیر، ذکر اور دعا وغیرہ تو واضح طور پر اللہ تعالی کا ذکر ہیں۔

حجر اسود کو بوسہ دینا بذات خود عبادت ہے؛ کیونکہ انسان ایسے پتھر کو بوسہ دیتا ہے جس کا انسان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، یہ بوسہ اپنی ذات میں اللہ تعالی کی بندگی ہے کہ اس کے حکم کی تعمیل اور اس کی ذات کی تعظیم ہے، اسی طرح یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی بھی ہے۔ امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ انہوں نے جس وقت حجر اسود کو بوسہ دیا تو فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، تو نفع یا نقصان نہیں دے سکتا، اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بھی بوسہ نہ دیتا۔

جبکہ کچھ جاہل لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حجر اسود کو بوسہ تبرک کے لیے دیا جاتا ہے تو یہ بات بے بنیاد ہے؛ اس لیے یہ کہنا باطل ہو گا۔" ختم شد
"مجموع فتاوى و رسائل الشیخ ابن عثیمین" (2 / 318 - 319)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مہلب رحمہ اللہ کہتے تھے: ۔۔۔ حجر اسود کو بوسہ دینا در حقیقت امتحان ہے، تا کہ اطاعت گزار کی اطاعت کا مشاہدہ ہو سکے، گویا کہ حجر اسود کو بوسہ دینے کا معاملہ شیطان ابلیس کو آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کے حکم جیسا ہے۔۔۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس قول میں واضح ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے دینی معاملات میں صاحب شریعت کی اتباع کی ہے، اور جن چیزوں کے مقاصد و حکمتیں واضح نہیں ہیں ان کی من و عن تعمیل ہے۔

اور یہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی اتباع کے حوالے سے بہت ہی عظیم قاعدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے افعال کی اتباع کی جائے گی چاہے ہمیں اس کی حکمت کا علم نہ ہو۔" ختم شد
"فتح الباری" (3 / 463)

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے حجر اسود کے بارے میں فرمایا: (اللہ تعالی حجر اسود کو قیامت کے دن اٹھائے گا تو اس کی دو آنکھیں ہوں گی جن سے یہ پتھر دیکھے گا، اور اس کی زبان ہو گی جس سے یہ بولے گا، اور جس نے بھی اس کا حق طریقے سے بوسہ لیا ہو گا اس کے بارے میں گواہی دے گا۔) اس حدیث کو ترمذی رحمہ اللہ (961) نے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے، جبکہ البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحیح سنن ترمذی" (1 / 493) میں صحیح قرار دیا ہے۔

صفا اور مروہ کی سعی :

علامہ الشیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"سعی کی حکمت کے بارے میں صحیح حدیث میں صراحت ہے ، یہ روایت صحیح بخاری میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جس میں ذکر ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے سیدہ ہاجرہ اور اسماعیل علیہما السلام کو مکہ میں تنہا چھوڑ دیا تھا، ان کے پاس ایک تھیلی رکھ دی جس میں کھجوریں تھیں اور پانی سے بھرا ایک مشکیزہ چھوڑ دیا ، اسی صحیح حدیث میں ہے کہ: (اسماعیل علیہ السلام کی والدہ ان کو دودھ پلانے لگیں اور خود پانی پینے لگیں ۔ آخر جب مشک کا سارا پانی ختم ہو گیا تو وہ پیاسی رہنے لگیں اور ان کا لخت جگر بھی پیاسا رہنے لگا۔ وہ اب دیکھ رہی تھیں کہ ان کے سامنے ان کا بیٹا ( پیاس کی شدت سے ) پیچ و تاب کھا رہا ہے یا ( کہا کہ ) زمین پر لوٹ پوٹ ہو رہا ہے ۔ وہ وہاں سے ہٹ گئیں کیوں کہ اس حالت میں بچے کو دیکھنا ان کے لیے ناگوار تھا۔ تو انہیں صفا پہاڑی نزدیک تر محسوس ہوئی تو وہ ( پانی کی تلاش میں ) اس پر چڑھ گئیں اور وادی کی طرف رخ کر کے دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی انسان نظر نہیں آیا ، تو وہ صفا سے نیچے اتر گئیں اور جب وادی میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا لیا ( تاکہ دوڑتے وقت نہ الجھیں ) اور کسی پریشان حال کی طرح دوڑنے لگیں پھر وادی سے نکل کر مروہ پہاڑی پر آئیں اور اس پر کھڑی ہو کر دیکھنے لگیں کہ کہیں کوئی انسان نظر آئے لیکن کوئی نظر نہیں آیا ۔ اس طرح انہوں نے سات چکر لگائے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ( صفا اور مروہ کے درمیان ) لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا ۔) الحدیث

اس حدیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان کہ: (ان کے درمیان لوگوں کے لیے دوڑنا اسی وجہ سے مشروع ہوا)اس میں صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی حکمت کی طرف اشارہ ہے؛ کیونکہ سیدہ ہاجرہ نے مذکورہ سعی اس وقت کی ہے جب انہیں انتہائی شدید قسم کی محتاجی کا سامنا تھا، انہوں نے اپنے رب کی کے سامنے اپنی فاقہ کشی پیش کی؛ کیونکہ ان کا لخت جگر اسماعیل انہیں دِکھ رہا ہے کہ وہ پیاس کی وجہ سے پیچ و تاب کھا رہا ہے، اور جگہ بھی ایسی ہے کہ جہاں نہ تو پانی ہے اور نہ ہی کوئی انسان ہے، پھر خود بھی انتہائی شدت کی بھوک اور پیاس میں ہے جو کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں آہ و زاری کی انتہا کا منظر ہے، سیدہ ہاجرہ سخت تکلیف اور کرب کی وجہ سے کبھی اس پہاڑی پر چڑھتی ہیں لیکن انہیں کچھ نظر نہیں آتا، اور کبھی دوسری پہاڑی پر چڑھتی ہیں لیکن وہاں بھی کوئی نظر نہیں آتا۔ تو لوگوں کو صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنے کا حکم دیا گیا تا کہ انہیں بھی احساس ہو کہ وہ بھی صرف اپنے خالق اور رازق کے سامنے اپنی حاجتیں رکھیں، اور حاجتیں رکھنے کا طریقہ کار بھی وہ اپنانا ہے جو انتہائی سنگین نوعیت کی تنگی کی حالت میں سیدہ ہاجرہ نے اپنایا تھا، اور یہ بھی یاد رکھیں کہ جو بھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرح اللہ تعالی کی اطاعت کرے گا تو اللہ تعالی بھی اسے کبھی ضائع نہیں فرمائے گا اور نہ ہی اس کی دعائیں رد فرمائے گا۔

تو صفا اور مروہ کی سعی کی حکمت کے متعلق یہ صحیح حدیث بالکل واضح دلیل ہے۔" ختم شد
"أضواء البيان" (5 / 342 - 343)

منی میں رات گزارنے کی حکمت:

الشیخ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"جمرات کو کنکریاں مارنے اور منی میں تین راتیں گزارنے کی کیا حکمت ہو سکتی ہے؟ ہم آپ سے امید کرتے ہیں کہ اس کی حکمت واضح فرما دیں، آپ کا بہت شکریہ۔

تو انہوں نے جواب دیا:
مسلمان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت کرے اور شریعت کی پابندی کرے چاہے اسے حکمت کا علم ہو یا نہ ہو، کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور قرآن کریم کی اتباع کا حکم دیا ہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے: اِتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ یعنی: تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے جو بھی نازل کیا گیا ہے اس کی اتباع کرو۔ اسی طرح فرمایا: وَهَذَا كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ مُبَارَكٌ فَاتَّبِعُوهُ یعنی: اور یہ کتاب ہم نے نازل کی ہے یہ بابرکت ہے، اس کی اتباع کرو۔ ایک اور مقام پر فرمایا: أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ یعنی: اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کرو۔ ایسے ہی فرمایا: وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا ترجمہ: اور جو کچھ تمہیں رسول دے تم اسے لے لو اور جس سے رسول تمہیں روکے اس سے رک جاؤ۔
اس لیے اگر آپ کو کسی حکمت کا علم ہو جائے تو الحمد للہ اور اگر حکمت کا علم نہیں بھی ہوتا تو اس سے آپ کو کوئی نقصان نہیں ہو گا۔

کیونکہ اللہ تعالی نے اپنی شریعت میں کوئی بھی کام حکمت کے بغیر شامل نہیں فرمایا، چنانچہ اگر کسی کام سے روکا ہے تو وہ بھی حکمت کی وجہ سے روکا ہے، اب چاہے ہمیں وہ حکمت معلوم ہو یا نہ ہو۔

اس لیے جمرات کو کنکریاں اسے لیے ماری جاتی ہیں تا کہ شیطان کی ناک خاک میں ملے اور اللہ تعالی کی اطاعت گزاری ہو۔

اور منی میں رات گزارنے کی حکمت بھی اللہ تعالی ہی جانتا ہے، لیکن ممکن ہے کہ منی میں اس لیے رات گزارنے کا حکم دیا گیا کنکریاں مارنا آسان ہو جائے؛ کیونکہ منی میں رات گزارتے ہوئے جب اللہ کے ذکر میں مشغول ہو گا تو کنکریاں مارنے کے لیے وقت پر تیار ہو سکے گا، لیکن اگر کنکریاں مارنے کے لیے منی کے باہر سے مرضی کے مطابق آئے تو عین ممکن ہے کہ رمی کے مقررہ وقت سے لیٹ ہو جائے یا یہ بھی ممکن ہے کہ وقت پر رمی کر ہی نہ سکے، یہ بھی ممکن ہے کہ اگر منی میں رات نہ گزارے تو کسی اور کام میں مشغول میں ہو جائے ، بہ ہر حال حتمی حکمت صرف اللہ تعالی کو ہی معلوم ہے۔" ختم شد
"مجموع فتاوى ومقالات الشيخ ابن باز" (380 - 382)

جمرات کو کنکریاں مارنے کی حکمت:
علامہ الشیخ محمد امین شنقیطی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات ذہن نشین رہے کہ جمرات کو کنکریاں مارنے کی اجمالی حکمت تو یہی ہے کہ یہ اللہ تعالی کی اطاعت ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبانی ملنے والے حکم کی تعمیل کی صورت میں اللہ کا ذکر بھی ہے، اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے۔

جیسے کہ سنن ابو داود میں ہے کہ: امام ابو داود کو ان کے استاد مسدد نے حدیث بیان کی، انہیں عیسی بن یونس نے ، انہیں عبید اللہ بن ابی زیاد نے بیان کی، انہوں نے قاسم سے اور انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً بیت اللہ کا طواف ، صفا مروہ کے درمیان سعی اور جمرات پر کنکریاں مارنا صرف اللہ تعالی کے ذکر کے لیے شریعت میں رکھے گئے ہیں۔) ۔۔۔ اس حدیث کی سند میں عبید اللہ بن ابی زیاد راوی ابو الحصین المکی القداح ہے، اسے محدثین کی ایک جماعت نے ثقہ قرار دیا ہے اور کچھ نے انہیں ضعیف کہا ہے، بہ ہر حال ان کی یہ حدیث بلا شک و شبہ صحیح ہے، اور اس کے صحیح ہونے پر اللہ تعالی کا یہ فرمان بھی دلیل بنتا ہے کہ: وَاذْكُرُوا اللَّهَ فِي أَيَّامٍ مَعْدُودَاتٍ یعنی: گنتی کے چند دنوں میں اللہ کا ذکر کرو۔ کیونکہ جس ذکر کا اس آیت میں حکم دیا گیا ہے اس میں جمرات کو کنکریاں مارنا بھی شامل ہے؛ اس کی دلیل اسی حکم کے بعد اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے کہ: فَمَنْ تَعَجَّلَ فِي يَوْمَيْنِ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ یعنی: اگر کوئی دو دنوں میں جلدی جانا چاہے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے۔ تو اس سے واضح طور پر معلوم ہو گیا کہ رمی بھی ذکر الہی کے لیے مشروع قرار دی گئی ہے۔ اور یہ بات بالکل واضح ہے۔

لیکن یہ حکمت کا اجمالی تذکرہ ہے، اس کی تفصیل سنن کبری بیہقی میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا سے مرفوعا منقول ہے کہ: (جس وقت ابراہیم علیہ السلام مشاعر میں آئے تو جمرہ عقبہ کے پاس شیطان رونما ہوا تو سیدنا ابراہیم نے انہیں سات کنکریاں ماریں، یہاں تک کہ شیطان زمین میں دھنس گیا، پھر شیطان دوبارہ دوسرے جمرے کے پاس رونما ہوا تو اسے پھر سات کنکریاں ماریں، یہاں تک کہ شیطان زمین میں دھنس گیا، اس کے بعد شیطان تیسری بار تیسرے جمرے کے پاس رونما ہوا تو اسے پھر سات کنکریاں ماریں، یہاں تک کہ شیطان زمین میں دھنس گیا۔)تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: تم کنکریاں شیطان کو مار رہے ہو، اور ابراہیم علیہ السلام کے طریقے پر چل رہے ہو۔ یہ الفاظ سنن کبری بیہقی کے ہیں۔

اس روایت کو امام حاکم نے مستدرک میں مرفوعا نقل کیا ہے اور پھر کہا کہ: یہ حدیث شیخین کی شرط کے مطابق صحیح ہے ، لیکن بخاری و مسلم نے اسے روایت نہیں کیا ۔

چنانچہ سنن کبری بیہقی کی بیان کردہ روایت کی روشنی میں جمرات کو کنکریاں مارتے ہوئے جو ذکرِ الہی ہے وہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی شیطان سے دشمنی میں اقتدا کی صورت میں ہے کہ ہم شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں اور [عہد کرتے ہیں کہ ہم] شیطان کے پیچھے نہیں لگیں گے۔ اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالی کا فرمان بھی ہے کہ: قَدْ كَانَتْ لَكُمْ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ فِي إِبْرَاهِيمَ یعنی: یقیناً تمہارے لیے ابراہیم کی ذات میں اسوہ حسنہ ہے۔ تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہاں کنکریاں مارنا شیطان سے عداوت کا اظہار ہے جو کہ اللہ تعالی کے فرمان کی تعمیل ہے: إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ترجمہ: یقیناً شیطان تمہارا دشمن ہے تم اسے اپنا دشمن ہی سمجھو۔

اسی طرح اللہ تعالی شیطان سے دوستی رکھنے والے شخص کے بارے میں فرمایا: أَفَتَتَّخِذُونَهُ وَذُرِّيَّتَهُ أَوْلِيَاءَ مِنْ دُونِي وَهُمْ لَكُمْ عَدُوٌّ یعنی: کیا تم شیطان اور شیطانی چیلوں کو مجھے چھوڑ کر دوست بناتے ہو ؛ حالانکہ وہ سب تمہارے دشمن ہیں۔

اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پتھر مار کر رجم کرنا عداوت کا سب سے بڑا مظہر ہے۔" ختم شد
" أضواء البيان" (5 / 340 - 341)

یہ حج و عمرے سے متعلقہ حکمتوں کے بارے میں اہل علم کی ایسی گفتگو ہے جس تک ہم رسائی پا سکے ہیں، ان میں سے اکثر باتیں اجتہادی نوعیت کی ہیں، چنانچہ ان میں سے اکثر ایسی باتیں ہیں جن کے بارے میں صریح نص نہیں ہے کہ ان عبادات کی مشروعیت کی یہی حکمتیں ہیں۔

چنانچہ اہل علم کی ایک بہت بڑی جماعت اس بات کی قائل ہے کہ حج کے افعال کی حکمت معلوم نہیں ہو سکتی، یہ سب کی سب اس انداز سے اس لیے مشروع قرار دی گئی ہیں کہ ہماری اطاعتِ الہی کی مقدار پرکھی جا سکے، اور اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے آزما سکتا ہے۔

ابن جوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہ بات ذہن نشین ہو کہ عبادت بنیادی طور پر معقول ہوتی ہے، یعنی عبادت اس لیے کی جاتی ہے کہ بندہ اپنے مولا کی اطاعت کرتے ہوئے انکساری کا اظہار کرے؛ اسی لیے نماز کی ادائیگی میں انکساری اور عاجزی کا اظہار بالکل اس طرح سے ہوتا ہے کہ جس سے اللہ تعالی کی بندگی سمجھ میں آتی ہے۔

اسی طرح زکاۃ کی ادائیگی میں دوسروں پر نرمی، اور غم بانٹنے کا عمل واضح طور پر موجود ہے۔

ایسے ہی روزے میں نفسانی خواہشات کو کچلنے کی صلاحیت ہے یہ اس لیے کہ انسان کا نفس سرکشی نہ کرے بلکہ مطیع اور فرمانبردار بن کر رہے۔

بیت اللہ کو اللہ تعالی نے شرف اور مقام بخشا ہے اس کا بھی ہدف ہے۔ نیز بیت اللہ کے آس پاس کے علاقے کو احترام والا علاقہ قرار دیا ہے یہ بھی بیت اللہ کے مقام کو مزید بڑا بنانے کے لیے ہے۔ پھر لوگوں کا بیت اللہ کی جانب پراگندہ حالت میں آنا بالکل ایسے ہی جیسے بندہ اپنے آقا کے سامنے عاجزی اور انکساری کے ساتھ آتا ہے یہ بھی بات بالکل واضح ہے۔

انسانی نفس جس چیز کو سمجھ لے تو اس کے ذریعے عبادت کرتے ہوئے انسیت محسوس کرتا ہے، چنانچہ انسان نفسیاتی طور پر اس کام کے لیے راغب ہوتا ہے اور اس طرح انسان کو ایسی عبادت کرنے کی ترغیب ملتی ہے؛ لیکن اسی عبادت کے دوران ایسی چیزیں شامل کر دی جاتی ہیں جن کی وجہ انسان کو سمجھ میں نہیں آتی مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کی کامل فرمانبرداری سامنے آئے، جیسے کہ صفا مروہ کے درمیان سعی اور جمرات کو کنکریاں وغیرہ مارنا؛ کیونکہ سعی یا جمرات کو کنکریاں مارنے سے انسان کو ذاتی طور پر کوئی فائدہ نہیں ہوتا، نہ ہی طبعی طور پر انسان اس کام سے مانوس ہے، اور نہ ہی اس کے مقاصد کو سمجھنے کے لیے عقل کے پاس کوئی راستہ ہے، لہذا ایسے کام کرنے کے لیے انسان کو ترغیب ذاتی مفادات نہیں بلکہ محض اطاعت گزاری کا جذبہ ہی دیتا ہے کہ یہ اللہ کا حکم ہے اور میں نے حکم کی تعمیل کرنی ہے۔

مندرجہ بالا تفصیلات کی روشنی میں آپ ایسی عبادات کے رازوں سے پردہ اٹھا سکتے ہیں جن کے مقاصد یا حکمتیں ہم سے پوشیدہ ہیں۔" ختم شد
"مثير العزم الساكن" (ص 285 - 286)

تو خلاصہ یہ ہے کہ:
محترم سائل!

حج اور عمرہ کی ادائیگی کے دوران شرعی عمل یہ ہے کہ: حاجی ہو یا عمرہ کرنے والا حج اور عمرے کے دوران وہ کام کرے جسے کرنا شریعت نے ہمیں بتلایا ہے، اور جس کام سے روکا ہے اس سے اجتناب کرے، اسی طرح حج اور عمرے کے ہر عمل کے ساتھ مختص اذکار کے معنی اور مفہوم پر خوب غور و فکر کرے؛ کیونکہ ذکرِ الہی حج کے عظیم مقاصد میں سے ایک ہے، جیسے کہ پہلے اس کی تفصیلات بیان ہو چکی ہیں۔ لہذا حاجی ہو یا عمرہ کرنے والا دوران حج و عمرہ ایک لمحہ بھی فضول میں ضائع مت کرے، بلکہ اللہ تعالی کے ذکر کے لیے حسب استطاعت خوب محنت کرے، اور اللہ تعالی کے شعائر کی کما حقہ تعظیم کرنے کی کوشش کرے، فرمانِ باری تعالی ہے:
ذَلِكَ وَمَنْ يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّهِ فَإِنَّهَا مِنْ تَقْوَى الْقُلُوبِ
 ترجمہ: یہ ، اور جو بھی اللہ تعالی کے شعائر کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کے تقوی میں شامل ہے۔[الحج: 32]

حج اور عمرے کا طریقہ اور ان میں پڑھے جانے والے اذکار جاننے کے لیے آپ درج ذیل فتاوی کی جانب رجوع کریں:
(31822 )، (31819 )، (34744 )، (47732 )، (10508 )، (109246 )، (220989 )

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب