الحمد للہ.
اول :
اگروالد مالداراوربیٹا غریب ہواورشادی کرنے کی سکت نہ رکھےتووالد پر بیٹے کی شادی کرنا واجب ہے ، اس لیے کہ شادی بھی واجب شدہ نفقہ میں سے ہے اوراللہ تعالی کے مندرجہ ذیل فرمان میں شامل ہے :
اورجن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جودستور کے مطابق ہو البقرۃ ( 233 ) ۔
تواس لیے اگر بیٹے شادی نہیں کرسکتے اوروالد میں استطاعت ہے تووالد پرضروری اورواجب ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کی شادی کرے اوران پر کھانے پینے اورپڑھائ وغیرہ میں خرچ کرے کا اس لیے کہ والدپر نفقہ واجب ہے ۔
دوم :
بیٹے کے ذمہ والد کا خرچہ واجب نہيں لیکن اگر دو شرطیں پائيں جائیں توپھر بیٹے کے ذمہ اپنے والد پر خرچ کرنا واجب ہوگا :
1 - یہ کہ بیٹا غنی مالدار ہو ( یعنی اس کے پاس اپنی ضرورت سے زيادہ مال ہو )
2 - والد فقیر ہو ۔
تواگر یہ دونوں شرطیں پائي جائيں توپھربیٹے کے ذمہ والد پر خرچہ کرنا ضروری اورواجب ہے ، اوریہاں پر سوال کرنے والی نے یہ ذکر کیا ہے کہ اس کے خاوند کا والد اچھا کھاتا پیتا اوراس کی ماہانہ آمدنی بھی ٹھیک ہے ۔
توپھر اگر حالت ایسی ہی ہے تو بیٹے پر یہ ضروری اورواجب نہیں کہ وہ اپنے والد پر خرچ کرے ، لیکن اگر مالدار ہونے کے باوجود والد بیٹے سے کچھ مال طلب کرتا ہے اوربیٹے کواس کی ضرورت نہیں بلکہ اس کے پاس زائد ہے توپھر اسے اپنے والد کویہ مال دینا چاہیے تا کہ وہ اپنے والد کا عاق شمار نہ ہو ۔
لیکن اگر بیٹے کوبھی مال کی ضرورت ہے توپھر اس پر لازم نہيں کہ وہ والد کومال ادا کرے ، اوربیٹے کو اپنے والد سے اپنے حالات بیان کر دینا ضروری ہے کہ اس کے مالی حالات صحیح نہیں اوروہ اپنا قرض ادا کرنے کے بعد جب مالی طور پر مستحکم ہوگا توپھر حسب استطاعت اپنے والد کو مال بیھج دے گا ۔
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اوراللہ تعالی کسی بھی جان کواس کی استطاعت سے زيادہ مکلف نہيں کرتا ۔
واللہ اعلم .