الحمد للہ.
اول:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غیبت کی بڑی واضح تعریف بیان کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (کیا جانتے ہو غیبت کسے کہتے ہیں؟) صحابہ نے کہا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم اپنے بھائی کا ایسے انداز میں تذکرہ کرو جو اسے پسند نہیں ہے) تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا: اگر جو بات میں کہہ رہا ہوں وہ میرے بھائی میں موجود ہے، تب بھی غیبت ہوگی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر آپ کی کہی ہوئی بات اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی ہے اور اگر اس میں وہ چیز موجود ہی نہیں ہے تو یہ تم نے بہتان بازی کی ہے) مسلم: (2589)
اسی طرح امام مالک رحمہ اللہ موطا (3/150) میں بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: غیبت کسے کہتے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (تم کسی شخص کی ایسی بات ذکر کرو جسے وہ سننا پسند نہیں کرتا) تو اس نے کہا: اللہ کے رسول! چاہے وہ سچ ہی کیوں نہ ہو؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اگر تم جھوٹ بولتے ہو تو یہ بہتان بازی ہے) اس حدیث کو البانی نے سلسلہ صحیحہ (1992) میں صحیح قرار دیا ہے۔
دوم:
غیبت انسان کی عدم موجودگی میں ہوتی ہے، جبکہ کسی کے منہ پر بے عزتی کرنا گالی گلوچ میں شامل ہوتا ہے اور یہ بھی حرام ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے لڑنا کفر ہے) بخاری: (48) مسلم: (64)
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (تم لوگ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو اور نہ ہی تناجش کرو [یعنی دھوکا دہی سے قیمت بڑھانے کیلیے مقابلہ بازی میں ریٹ مت لگاؤ]اور نہ ہی ایک دوسرے سے بغض رکھو اور نہ ہی ایک دوسرے سے رو گردانی کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی بیع پر بیع نہ کرے اور اللہ کے بندے بھائی بھائی بن جاؤ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے وہ نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین مرتبہ فرمایا تقوی یہاں ہے کسی آدمی کے برا ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے ہر مسلمان کی جان، مال اور عزت آبرو تمام مسلمانوں پر مکمل طور پر حرام ہیں) مسلم: (2564)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"راجح یہی معلوم ہوتا ہے کہ غیبت کا تعلق کسی کے غائب ہونے سے ہے، اہل لغت یہی بات یقینی طور پر کہتے ہیں کہ ان دونوں کا مصدر ایک ہے، چنانچہ ابن تین رحمہ اللہ کہتے ہیں: غیبت یہ ہے کہ کسی آدمی کا تذکرہ اس کی عدم موجودگی میں ایسے کریں جو اسے پسند نہ ہو۔ غیبت کیلیے عدم موجودگی کی شرط زمخشری، ابو نصر قشیری نے تفسیر میں ، اسی طرح ابن خمیس نے غیبت کے متعلق مستقل رسالے میں اور ایسے ہی منذری نے بھی لگائی ہے، ان کے علاوہ بھی دیگر اہل علم یہ قید لگاتے ہیں جن میں سے آخری ہیں کرمانی رحمہ اللہ وہ کہتے ہیں کہ:
غیبت یہ ہے کہ آپ کسی انسان کی پیٹھ پیچھے ایسی بات کریں کہ اگر وہ سن لے تو اسے برا لگے اور وہ بات سچی بھی ہو" انتہی
فتح الباری : (10/469)
علامہ جرجانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"غیبت یہ ہے کہ: انسان میں موجود برائی کو اس کی عدم موجودگی میں بیان کریں، اگر برائی سرے سے موجود نہ ہو تو یہ بہتان ہے، اور اگر منہ پر برائی کرے تو یہ گالی ہے" انتہی
" التعريفات " (ص163)
خلاصہ یہ ہے کہ:
آپ نے اپنے مسلمان بھائی کو اکھڑ مزاج کہا اور اکھڑ مزاج کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسا شخص جس کے ساتھ آپ تھوڑی دیر بھی نہیں بیٹھ سکتے کیونکہ وہ سخت اور تند مزاج کا آدمی ہے، اس کے کردار اور گفتار میں سختی ہے، آپ نے یہ کہہ کر اس کی غیبت کی ہے چاہے آپ نے یہ غصے کی حالت میں کہا ہے؛ کیونکہ غصے کی وجہ سے یہ اجازت نہیں ہے کہ آپ کسی مسلمان کی بے عزتی کریں حالانکہ اس نے آپ کا کچھ نہیں بگاڑا۔
غیبت کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت قسم کی وعید منقول ہے، اس لیے آپ کیلیے ضروری ہے کہ آپ توبہ کریں اور اگر آپ کے بھائی کو آپ کی اس بات کی خبر پہنچ گئی ہے تو اس سے اس بات پر معافی مانگیں، اور اگر یہ بات اس تک نہیں پہنچی تو پھر آپ اپنے بھائی کیلیے استغفار کریں اور دعا کریں۔
مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (23328) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم.