الحمد للہ.
آپ کے سوال سے جو ہمیں سمجھ میں آیا ہے اس کے مطابق اس لین دین میں چار فریق شریک ہیں:
1-خریدار
2-آپ کی ویب سائٹ
3-تقسیم کار
4-خود کار ادائیگی کی سروس فراہم کرنے والا
تو اس حوالے سے ہم یہ کہتے ہیں کہ:
اول:
خریدار 2 فیصد فیس کے عوض میں خود کار ادائیگی کی سروس کے ذریعے قیمت ادا کر سکتا ہے، یہ اجرت کے عوض وکالت ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
دوم:
آپ اس وقت تک سامان فروخت نہیں کر سکتے جب تک آپ اسے ڈسٹری بیوٹر کی دکان میں سے نکال کر اپنی ملکیت میں نہیں لے لیتے، اس کی دلیل سنن نسائی: (4613) ، ابو داود: (3503) اور ترمذی: (1232) میں ہے کہ سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا: "اللہ کے رسول! میرے پاس ایک آدمی آ کر مجھ سے ایسی چیز فروخت کرنے کا کہتا ہے جو ابھی میرے پاس نہیں ہے، تو اسے وہ چیز فروخت کر کے پھر بازار سے اس کے لیے خرید لیتا ہو، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو چیز آپ کے پاس نہیں ہے اسے فروخت مت کرو) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح سنن نسائی میں صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح دارقطنی اور ابو داود: (3499) نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ: ( نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے سامان اسی جگہ فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے جہاں اسے خریدا گیا ہو، تا آں کہ تاجر سامانِ تجارت اپنے گھر میں لے آئیں) اس حدیث کو البانیؒ نے صحیح ابو داود میں حسن قرار دیا ہے۔
اس شرعی مخالفت سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کہ:
1-آپ گاہک سے صرف وعدہ کریں کہ آپ سامان خرید کر اپنی ملکیت میں لے آئیں گے اور پھر گاہک کو فروخت کریں گے، چنانچہ جب آپ خرید کر اسے اپنے قبضے میں لے لیں تو آپ گاہک کے ساتھ بیع کریں اور سامان اسے ارسال کر دیں۔
2-یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ڈسٹری بیوٹر یا تقسیم کار کا نمائندہ بن جائیں اور آپ کمیشن کے عوض اس کا سامان فروخت کریں، یا آپ گاہک کے نمائندے بن جائیں اور اس کے لیے تقسیم کار سے سامان مارکیٹ ریٹ کے مطابق خریدیں اور گاہک کے ساتھ اس کام کی اجرت مقرر کر لیں۔
3- یہاں ایک تیسری صورت بھی بن سکتی ہے کہ آپ بیع سلم کریں، وہ اس طرح کہ گاہک کو آپ سامان اس انداز سے فروخت کریں کہ آپ سامان کی مکمل تفصیلات بیان کریں کہ ابہام کی وجہ سے جھگڑے کا امکان نہ رہے، اور آپ مقررہ وقت میں اسے سامان دینے کا وعدہ کریں، اور عقد کے وقت پوری قیمت وصول کر لیں چاہے یہ رقم آپ اپنے اکاؤنٹ میں وصول کریں، اس طرح قیمت حکمی طور پر آپ کے قبضے میں شمار ہو گی۔ لیکن اس صورت میں خود کار ادائیگی کرنے والے کے پاس قیمت کا رہنا صحیح نہیں ہو گا۔
یہ تینوں صورتیں ہم پہلے سوال نمبر: (254652) کے جواب میں بیان کر چکے ہیں۔
یہاں آپ کو یہ بھی معلوم ہو گیا ہو گا کہ اصل ممانعت سامان اپنی ملکیت میں لینے سے پہلے گاہک کو فروخت کرنے سے متعلق ہے۔
اور اس سے بچاؤ مذکورہ تین صورتوں میں سے کسی ایک کے ذریعے ممکن ہے، تاہم آپ کے لیے پہلی صورت مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ آپ مال فروخت کرنے سے پہلے تقسیم کار سے مال وصول ہی نہیں کرتے۔
اگر تقسیم کار اس بات پر راضی ہو کہ آپ اس کا نمائندہ بن کر کام کریں اور تقسیم کار آپ کو اپنا نمائندہ تسلیم کر لے ، اور آپ کو اس کا کمیشن بھی دے تو یہ صورت آپ کے لیے ٹھیک ہے۔ لیکن اس صورت میں آپ اس کے اکاؤنٹ میں پیشگی رقم ڈپازٹ نہیں کروائیں گے؛ کیونکہ آپ اس کے نمائندے ہیں اور آپ اس سے خریداری نہیں کر رہے۔
آپ کا ذکر کردہ دوسرا طریقہ آپ کے لیے مناسب ہے کہ آپ گاہک کی ادا کی ہوئی رقم خود کار ادائیگی کی سروس فراہم کرنے والے سے وصول کر لیں اور تقسیم کار تک پہنچائیں، فروخت کنندہ کے نمائندے بن کر فروخت بھی کریں اور اس کے سامان کی قیمت بھی وصول کریں۔ یا پھر گاہک کے نمائندے بن کر خریداری کریں یا اس کی طرف سے ادائیگی کریں۔ لیکن اس میں شرط یہ ہے کہ آپ جس کے بھی نمائندے بنیں آپ کے ساتھ وکالت کا معاہدہ کریں اور اس وکالت پر آپ کی وکالت پر اجرت بھی مقرر کرے۔
بیع سلم والی صورت آپ کے لیے مناسب نہیں ہے؛ کیونکہ بیع سلم میں معاہدے کے وقت پوری قیمت وصول کرنا لازم ہوتی ہے، اس صورت میں یہ صحیح نہیں ہے کہ دلال کے پاس رقم باقی رہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ: چونکہ آپ کے پاس سامان نہیں ہوتا، اور اسے فروخت کرنے سے پہلے آپ اپنے قبضے میں بھی نہیں لے سکتے، نہ ہی گاہک سے پوری قیمت وصول کر سکتے ہیں، تو ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ کے لیے تقسیم کار کی جانب سے نمائندگی کی صورت ہی بچتی ہے۔
دوم:
آپ نے ذکر کیا کہ گاہک خود کار ادائیگی کی سروس فراہم کرنے والے کے ساتھ قیمت کی اقساط بنا سکتا ہے تو یہ جائز نہیں ہے۔ یہ سود ہے جیسے کہ آپ نے بھی سوال میں ذکر کیا ہے؛ کیونکہ جب خود کار ادائیگی کرنے والے نے ساری رقم گاہک کی جانب سے ادا کر دی پھر گاہک سے زیادہ وصول کرنے چلا ہے تو یہ سود ہے۔
اس کی جائز صورت یہ ہے کہ گاہک اسے ادائیگی کرے اور وہ فروخت کنندہ کو یہ رقم کمیشن کے عوض پہنچائے تو یہ معاوضے کے بدلے میں وکالت ہے جو کہ جائز ہے، جیسے کہ پہلے گزر چکا ہے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (102744) کا جواب ملاحظہ کریں۔
واللہ اعلم