الحمد للہ.
ميرے خيال ميں تو اس ميں كوئى گناہ اور حرج نہيں، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كى قرآت سنى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو بہت اچھى لگى اور پسند آئى تو آپ نے انہيں فرمايا:
" تجھے تو آل داود كى حسن آواز ميں سے آواز دى گئى ہے"
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے: اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كيا آپ نے ميرى قرآت سنى ہے ؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے: " جى ہاں"
ابو موسى اشعرى رضى اللہ تعالى عنہ كہنے لگے:
اگر مجھے علم ہوتا كہ آپ سن رہے ہيں تو ميں آپ كے ليے اس ميں اور بھى زيادہ خوبصورتى پيدا كرتا اور اسے مزين كرتا "
صحيح مسلم مختصر فى صلاۃ المسافرين حديث نمبر ( 793 ).
اگر يہ امام حافظ قرآن اور اچھى اور خوبصورت آواز كا مالك ہے، اور اس سے ان طلباء كو نشاط اور چستى حاصل ہوتى ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، خاص كر جب مستقل امام اس كى اجازت بھى دے چكا ہے، مسجد كے امام كے مشكور ہونا چاہيے كہ اس نے مصلحت كو مدنظر ركھتے ہوئے اس كى اجازت دے دى ہے.