الحمد للہ.
اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ صدقہ جاريہ فوت شدہ شخص كے باقى رہنے والے اعمال صالحہ ميں شمار ہوتا ہے، اور مرنے كے بعد بھى اسے اس كا اجروثواب حاصل ہوتا رہتا ہے، اور اسى ليے شريعت اسلاميہ نے اس كى رغبت بھى دلائى ہے.
ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب انسان مر جاتا ہے تو اس كے سارے اعمال اس سے منقطع ہو جاتے ہيں، صرف تين قسم كے اعمال ہيں جو جارى رہتے ہيں، صدقہ جاريہ، يا نفع مند علم، يا نيك اور صالح اولاد جو اس كے ليے دعا كرتى رہے"
صحيح مسلم شريف حديث نمبر ( 1631 ).
ليكن افسوس كا مقام ہے كہ شرعى صدقہ جاريہ كے اختيار ميں بعض اوقات انسان كو توفيق نہيں ہوتى كہ وہ ايسا كام اختيار كرے جس اجروثواب اس كى موت كے بعد بھى جارى رہے، ان غلط كاموں ميں بعض لوگ يہ كرتےہيں كہ ايسى رباط اور عمارتيں بنا ديتے ہيں جہاں پر ذكر و اذكار كى محفليں اس طريقہ پر سجائى جاتى ہيں جو طريقہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت نہيں، بلكہ ايسے طريقے اپنائے جاتے ہيں جو شريعت اسلاميہ سے متصادم ہوتے ہيں، اورتوحيد كے اعتبار سے اس ميں ايسے كلمات ادا كيے جاتے ہيں جو نواقص توحيد ہوتے ہيں، جن ميں اولياء اللہ كے بارہ علم غيب كا دعوى كيا جاتا ہے، اور يہ اولياء جہان ميں حكمرانى كرتے ہيں، اور انبياء عليہم السلام بھى ( نعوذ باللہ ) ان اولياء كے تابع ہيں، ( يعنى قطب اور ابدال وغيرہ كے)
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
مجمل طور پر يہ ہے كہ:
علماء كرام ميں كوئى اختلاف نہيں كہ جس نے نماز، يا روزہ، يا قرات، يا غيرى شرعى جھاد پر وقف كيا تو اس كا وقف صحيح نہيں ہو گا، بلكہ اسے اس عمل اور اس ميں خرچ كرنے سے منع كيا جائے گا.
ديكھيں: مجموع فتاوى ( 31 / 37 ).
اور ابن قيم رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
وقف صرف اللہ تعالى كا قرب حاصل كرنےاور اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى ميں ہى كيا جا سكتا ہے، لھذا كسى درگاہ اور دربار اور قبر كے ليے وقف كرنا اور وہاں چراغ جلانا ان كى تعظيم كرنا، ان كے ليے نذرونياز دينا، اور وہاں عرس اور ميلے لگانا، اور ان ميلوں و عرسوں ميں شركت كرنا، اور اللہ تعالى كے علاوہ ان درباروں اور قبروں كى عبادت كرنا، اور اللہ تعالى كے علاوہ بت بنا لينا، يہ سب كچھ غلط اور خلاف شريعت كام ہيں، جن ميں اسلام كے آئمہ كرام اور ان كے پيرو كاروں ميں سے كسى نے بھى اختلاف نہيں كيا.
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 507 ).
اب رہا كہ آپ كے والد كس طرح اور كونسے طريقہ سے مطمئن ہونگے، تو يہ ان كے حالات پر منحصر ہے، اور اس تصوف و صوفيت كے ساتھ وہ كس قدر مطمئن ہے، اور اس نے اسے كس قدر اپنے اندر سميٹا ہوا ہے، اس كے پاس كيا دلائل ہيں، اور علم كتنا ہے.
ہم سوال كرنے والى بہن كو نصيحت كرتے ہيں كہ جب وہ اپنے والد سے بات چيت كرے تو ان سب امور جو اوپر بيان كيے گئے ہيں ان كا خيال ركھے، اور حتى الوسع نرم رويہ اختيار كرنے كى كوشش كرے، اور اس كے ساتھ ساتھ اس كا كوئى قريبى تلاش كريں جس كے پاس كتاب وسنت كا علم ہو، جس كے ذريعہ آپ كے والد كو اس بدعتى وقف كو ترك كرنے پر مطمئن كيا جاسكے، اور اس كى وصيت بھى كى جائے.
اگر آپ اپنے والد كو اس وصيت اور بدعتى وقف ترك كرنے پر مطمئن كرنے كے ليے يہ سارے امكانات بروئے كار لائيں تو اس عورت كے ليے اس كى شرط پر موافقت كا اظہار كرنا جائز ہے، ليكن اسے پورا كرنا لازم نہيں، بلكہ اس پر واجب ہے كہ وہ والد كى وفات كے بعد اپنے گھر ميں ايسا كام كرنے سے منع كرے، اور وفات سے قبل بھى اگر روكنے كى استطاعت ہو تو روكنا واجب ہے، كيونكہ جس نے بھى كوئى حرام شرط ركھى تو اس شرط كو پورا كرنا جائز نہيں ہے، كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ان لوگوں كا كيا حال ہے جو ايسى شرطيں ركھتے ہيں جو كتاب اللہ ميں نہيں، جو شرط بھى كتاب اللہ ميں نہيں تو وہ شرط باطل ہے، اگرچہ وہ ايك سو شرطيں بھى كيوں نہ ہوں، اللہ تعالى كا فيصلہ حق ہے، اور اللہ تعالى كى شرط زيادہ پختہ ہے"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 2579 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1504 )
واللہ اعلم .