الحمد للہ.
اما بعد:
اول:
يہ مسئلہ تفصيل طلب ہے:
دو حالتوں ميں نماز آخر وقت تك موخر كرنا افضل ہے:
پہلى حالت:
اگر پانى كى موجودگى كا علم ہو، يعنى يہ معلوم ہو كہ پانى مل جائيگا تو اس صورت ميں تاخير كرنى افضل ہے، ليكن واجب نہيں، كيونكہ اس كا علم تاكيدى اور يقينى امر نہيں، اس ليے كہ معلوم چيز بعض اوقات مختلف بھى ہو سكتى ہے.
دوسرى حالت:
اگر اس كے نزديك راجح ہو كہ پانى مل جائيگا، تو وہ نماز ميں تاخير كر لے، كيونكہ اس ميں نماز كى شرائط ميں سے ايك شرط كى پابندى ہو رہى ہے، يعنى پانى كے ساتھ وضوء و طہارت كرنا، اور اول وقت ميں نماز كى ادائيگى كى پابندى كرنا يہ صرف فضيلت پر پابندى ہے، تو اس طرح پانى كے ساتھ طہارت كرنے كے ليے نماز ميں تاخير كرنا افضل ہو گى.
تين حالتوں ميں نماز اول وقت پر ادا كرنى افضل ہو گى:
پہلى حالت:
اگر يہ علم ہو كہ پانى نہيں ملے گا.
دوسرى حالت:
اگر اس كے نزديك يہ راجح ہو كہ اسے پانى نہيں ملے گا.
تيسرى حالت:
اگر اسے تردد ہو اور كچھ بھى راجح معلوم نہ ہوتا ہو. اھـ.