جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

اگرعورت ملازمت کرتی ہوتو کیا گھریلو اخراجات پورے کرنے اس کے ذمہ ہیں

2686

تاریخ اشاعت : 07-07-2003

مشاہدات : 6834

سوال

کیا ملازمت کرنے والی عورت گھریلواخراجات کی ذمہ دار ہے کیونکہ اس کے خاوند کا کہنا ہے کہ اگر وہ گھریلواخراجات برداشت نہیں کرے گی تووہ ملازمت نہيں کرسکتی ؟
اورکیا بیوی کی تنخواہ میں خاوند کا کوئ حق ہے کہ وہ بیوی کی ملازمت کے مقابلہ میں اس کا تقاضا کرے ؟
اوراگربیوی پر گھریلواخراجات کرنے ضروری ہيں توپھر خاونداوربیوی کے مابین اخراجات کا تناسب کیا ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


روزی کی تلاش اورکام کاج کے سلسلہ میں اپنے وطن سے دوررہنے والے خاوند اوربیوی کے مابین گھریلو اخراجات کےمسئلہ میں ضروری ہے کہ دونوں کے مابین مصالحت ہو اوروہ کسی بھی قسم کا نزاع نہیں ہونا چاہیے ۔

اخراجات کے وجوب کے بارہ میں مسئلہ مختلف ہے جس میں تفصیل ہے :

1 - اگرخاوند نے آپ کی ملازمت پر یہ شرط رکھی ہے کہ گھریلو اخراجات آپ اوراس دونوں کے ذمہ ہوں گے وگرنہ آپ کوملازمت کرنے کی اجازت نہیں ہے ۔

مسلمان تواپنی شروط پر قائم رہتے ہیں اس لیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی فرمان ہے :

( مسلمان اپنی شروط پر ہیں لیکن وہ شرط جوحرام کوحلال اوریا پھر حلال کوحرام کردے ) ۔

اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ بھی فرمان ہے :

( شرائط میں سے سب سے زیادہ وہ شرط پوری کرنا ضروری اورحقدار ہے جس کے ساتھ تم بیوی کوحلال کرتے ہو ) ۔

یعنی نکاح کے وقت جو شرائط رکھی جائيں وہ زيادہ حق رکھتی ہیں کہ انہیں پورا کیا جاۓ ، لھذا تمہارے مابین اگرکوئ شرط ہے تو تم اپنی ان شروط پرہی ہواوران کا پورا کرنا ضروری ہے ۔

2 - لیکن اگر تمہارے مابین کوئ شرط نہيں توپھر سب کےسب گھریلو اخراجات خاوند کے ذمہ ہيں نہ کہ بیوی کے ذمہ اس لیے کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے خاوند کوہی اس کا ذمہ دار ٹھرایاہے ۔

اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے :

کشادگی والے کواپنی کشادگی میں سے خرچ کرنا چاہیے ۔

اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

اورتمہاری بیویوں کا نان ونفقہ اورلباس احسن طریقے پرتمہارے ذمہ ہے

لھذا ہر قسم کاخرچہ خاوند کے ذمہ ہی ہے وہی ہے جو گھریلوضروریات کوپورا کرنے کا ذمہ دار ہے اوراپنی بیوی بچوں کے اخراجات بھی برداشت کرے گا ، اگربیوی کام کرتی ہے تو وہ اس کی معیشت ہے اوراس کی تنخواہ ہے جس میں کسی دوسرے کا حق نہيں اس لیے کہ وہ اس کے کام اورتھکاوٹ کے بدلہ اسے ملتی ہے ۔

اورخاوند نے ہوسکتا ہے کہ بیوی سے ازدواجی تعلقات قائم کرتے وقت اس کے ساتھ کوئ شرط نہ رکھی ہو کہ اخراجات اس کے ذمہ ہوں گے یاپھر نصف اخرجات کی وہ ذمہ دار ہوگی یا کوئ اورشرط ، لیکن یہ ہوسکتا ہے کہ بیوی اپنی اس تنخواہ سے اگرکچھ اپنے خاوند کواپنی رضامندی اورخوشی سے ادا کردے تو اس میں کوئ حرج والی بات نہيں ۔

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

ہاں اگر وہ خود اپنی خوشی اوررضامندی سے تمہیں کچھ دے دیں تواسے خوش ہو کر شوق سے کھاؤ پیو النساء ( 4 ) ۔

لیکن اگر اس نے بیوی سے تعلقات استوار کرتے وقت کوئ شرط رکھی تھی وہ پھر اسے شرط پوری کرنا ہوگی اورمسلمان اپنی شرائط پوری کرتے ہیں جیسا کہ اوپر بیان بھی کیا جا چکا ہے ۔

اورمیں آپ کویہ نصیحت کرتا ہوں کہ آپ اپنی رضامندی اورخوشی سے اپنی تنخواہ میں سے کچھ نہ کچھ اپنے خاوند کوادا کردیں تا کہ جھگڑے کا خاتمہ اوراس کا حل ہوسکے ، اوراشکال بھی جاتا رہے اورآپ کی زندگی بھی راحت و اطمنان اورہنسی خوشی بسر ہو ۔

توآپ دونوں آدھی تنخواہ یا پھر چوتھا حصہ اوریا پھر تیسرے حصہ پر آپس میں اتفاق کرلیں تا کہ مشکلات کا خاتمہ ہو اورجھگڑے کی جگہ اطمنان وراحت اورہنسی خوشی جگہ حاصل کرسکے ۔

یا پھر دوسری بات یہ ہے کہ خاوند اجازت دے دے اوراپنے رب کی تقسیم پر راضی ہوتا ہوا حسب استطاعت اخراجات پورے کرے اورآپ کواپنی پوری تنخواہ رکھنے کی اجازت دیتا ہوا اس سے دستبردار ہوجاۓ ۔

اوراگرآپ کی یہ مشکل حل نہ ہوسکے تو پھر اس میں کوئ مانع نہیں کہ آپ اپنے علاقہ اورملک کی شرعی عدالت سے فیصلہ کروائيں ، اورشرعی عدالت جوفیصلہ کردے ان شاء اللہ اس میں ہی کفائت ہے ، اللہ تعالی سب کو صحیح اعمال کی توفیق عطا فرماۓ ۔

واللہ اعلم  .

ماخذ: شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی عنہ کے فتاوی سے لیا گيا ہے ۔