جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

دوسروں كى جاسوسى كرنے كى حرمت

26964

تاریخ اشاعت : 19-06-2006

مشاہدات : 9036

سوال

ميں ايك كمپنى ميں ملازم ہوں، مينجر نے مجھ سے مطالبہ كيا ہے كہ ميں اس كى شخصيت كے متعلق ملازموں كى باتيں بتايا كروں، باوجود اس كے ملازم اس كے بارہ ميں كچھ باتيں ايسى بھى كرتے ہيں جو صحيح ہيں، تو كيا اس جاسوسى كے عوض ميں مجھے ملنے والا الاؤنس حلال ہے يا حرام ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ كے ليے يہ حرام كام كرنا جائز نہيں، كيونكہ يہ چغل خورى اور جاسوسى ميں شامل ہوتا ہے، اور اس كى بنا پر ملنے والا رقم بھى حرام ہے.

آپ كے علم ميں ہونا چاہيے كہ چغلى اور غيبت كبيرہ گناہوں ميں سے ہے، اور چغلى و غيبت يہ ہے كہ لوگوں كى باتوں كو ايك دوسرے كى طرف ان ميں فساد اور گڑبڑ پيدا كرنے كے ليے نقل كى جائے، غيبت اور چغلى كى معروف تعريف يہى ہے.

ابن حجر الھيتمى رحمہ اللہ تعالى نے يہ تعريف اپنى كتاب " الزواجر عن اقتراف الكبائر " ميں نقل كرنے كے بعد كہا ہے كہ:

( اور احياء ميں كہا ہے كہ: يہ اس كے ساتھ ہى مختص نہيں، بلكہ ہر وہ چيز جس كا انكشاف اور ظاہر كيا جانا ناپسند سمجھا جائے، چاہے اسے جس كى طرف نقل كيا جائے وہ ناپسند كرے يا پھر جس كى جانب سے وہ بات نقل كى جارہى ہے وہ ناپسند كرے، يا كوئى تيسرا شخص، اور چاہے اسے بات كے ذريعہ ظاہر كيا جائے يا لكھ كر يا اشارہ كنايہ سے، اور چاہے منقول كوئى فعل ہو يا قول، يا عيب يا جس كى جانب سے نقل كيا جا رہا ہے اس كا نقص يا كوئى اور چيز يہ سب برابر ہے.

تو اس طرح چغلى اور غيبت كى حقيقت يہ ہوئى كہ راز افشا كرنا، اور چھپى ہوئى چيز كو ظاہر كرنا جس كا اظہار ناپسند ہو، تو اس طرح لوگوں كے جو حالات بھى ديكھے گئے ہوں اور ان كا مشاہدہ كيا گيا ہو انہيں آگے بيان كرنے سے خاموشى اختيار كرنا، ليكن صرف اسے بيان كيا جائے جس ميں كسى مسلمان كو نفع ہو يا اس سے كوئى ضرر اور نقصان دور كرنے كے ليے بيان كيا جاسكتا ہے.

مثلا: اگر كوئى كسى شخص كو كسى كا مال لے جاتے ہوئے ديكھے، تو اسے اس كى گواہى دينا ہو گى، بخلاف اس كے كہ اگر كوئى شخص اپنا مال چھپا رہا ہے تو اس نے اسے بيان كر ديا تو يہ چغلى اور غيبت اور راز افشا كرنے ميں شامل ہو گا.

لھذا اگر جو كسى شخص كے بارہ ميں بيان كيا جا رہا ہے وہ اس ميں عيب ہو يا نقص ہو تو يہ غيبت اور چغلى ميں شامل ہو گا، انتھى ) .

ديكھيں: ا لزواجر: كبيرہ گناہ نمبر ( 252 )

اور حافظ منذرى رحمہ اللہ تعالى سے نقل كيا گيا ہے كہ:

( چغلى اور غيبت كى حرمت، اور يہ كہ چغلى اور غيبت اللہ تعالى كے ہاں عظيم اور كبيرہ گناہوں ميں سے ہونے پر امت كا اجماع ہے ).

اس سے يہ پتہ چلتا ہے كہ آپ كا اپنے ملازم ساتھيوں كى باتيں مينجر كو بتانا راز كا افشاء اور فساد و فتنہ كى كوشش ہے، اور اس كام ميں پڑنا كبيرہ اور عظيم گناہوں ميں شامل ہوتا ہے، اور اس پر مستزاد يہ كہ يہ كام حرام كردہ جاسوسى ميں شامل ہے.

كتاب و سنت ميں بہت سى نصوص اور دليليں آئى ہيں جن ميں غيبت اور چغلى، اور جاسوسى، اور لوگوں كى عيب جوئى اور نقص تلاش كرنے كى بہت زيادہ مذمت كى گئى ہے، اور يہ دلائل اور نصوص مسلمان شخص كو ان حرام كام كے ارتكاب سے روكتے اور منع كرتے ہيں.

ذيل ميں ہم چند دلائل ذكر كرتے ہيں:

1 - رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" چغل خور اور غيبت كرنے والا شخص جنت ميں داخل نہيں ہو گا"

اور ايك روايت ميں قتات كے لفظ ہيں.

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6056 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 105 ).

قتات نمام كو ہى كہتے ہيں: اور كہا گيا ہے كہ: نمام وہ شخص ہے جو چند باتيں كرنے والے لوگوں كے ساتھ ہو اور ان كے ساتھ غيبت كرے، اور قتات اس شخص كو كہتے ہيں جو ان كى باتيں چورى چھپے سنے اور انہيں علم تك نہ ہو پھر بعد ميں چغلى كرتا پھرے.

2 - صحيحين ميں ابن عباس رضى اللہ عليہ تعالى عنہما سے مروى ہے كہ: ايك دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مدينہ كے كسى باغ سے نكلے تو دو انسانوں كى آواز سنى جنہيں ان كى قبروں ميں عذاب ہو رہا تھا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" انہيں عذاب تو ہو رہا ہے ليكن يہ عذاب كوئى بہت بڑى چيز ميں نہيں حالانكہ يہ بڑى بھى ہے، ان ميں ايك تو پيشاب ( كے چھينٹوں ) سے اجتناب نہيں كرتا تھا، اور دوسرا چغلى كرتا تھا"

صحيح بخارى حديث نمبر ( 216 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 292 ).

3 - اور صحيحين ميں ہى ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تم گمان سے بچا كرو، كيونكہ گمان جھوٹى ترين بات ہے، اور تم جاسوسى نہ كرو، اور كسى كے عيب نہ ٹٹولا كرو، اور آپس ميں ايك دوسرے سے حسد مت كرو، اور ايك دوسرے سے قطع تعلقى مت كرو، اور آپس ميں بغض مت ركھو، بلكہ اللہ كے بندے اور آپس ميں بھائى بھائى بن كر رہو"

صحيح بخاري حديث نمبر ( 5144 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2563 )

امام نووى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

( بعض علماء كا كہنا ہے كہ: التحسس: حاء كے ساتھ: كسى قوم كى بات چيت سننے كو كہتے ہيں، اور جيم كے ساتھ التجسس: لوگوں كے عيوب تلاش كرنے كو كہتے ہيں.

اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: باطنى امور تلاش كرنا، اور اكثر طور پر يہ شر ميں كہا جاتا ہے، اور جاسوس پوشيد شر والا ہے، اور ناموس پوشيدہ بھلائى والا ہے.

اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: جيم كے ساتھ: التجسس: كسى دوسرے كے ليے عيب تلاش كرنے، اور حاء كے ساتھ لوگوں كے عيوب اپنے ليے تلاش كرنے. يہ ثعلب كا كہنا ہے.

اور يہ بھى كہا گيا ہے كہ: يہ دونوں ايك ہى معنى ميں ہيں، وہ يہ كہ غائب اور پوشيد حالات اور خبريں تلاش كرنے كو كہتے ہيں ). انتھى

4 - امام بخارى رحمہ اللہ تعالى نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے كوئى ايسى خواب بيان كى جو اس نے ديكھى بھى نہ ہو اسے دو جو كے مابين گرہ لگانے كا مكلف كيا جائے گا، اور وہ ہر گز ايسا نہيں كر سكے گا، اور جس نے كسى قوم كى بات چيت سنى اور وہ اسے ناپسند كرتے ہوں يا اس سے بھاگتے ہوں تو روز قيامت اس كے كانوں ميں پگھلايا ہوا سكہ ڈالا جائے گا، اور جس نے تصاوير بنائيں اسے عذاب ديا جائے گا اور اسے اس ميں روح ڈالنے كا مكلف كيا جائے گا ليكن وہ اس ميں نہيں پھونك سكے گا"

صحيح بخارىحديث نمبر ( 7042 )

الانك پگھلے ہوئے سكے كو كہتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب