الحمد للہ.
نماز عيد فرض كفايہ ہے؛ جب كچھ لوگ ادا كرليں تو باقيوں سے ساقط ہو جاتى ہے، سوال ميں جس صورت مسئولہ ميں ان لوگوں كى جانب سے فرض ادا ہو چكا تھا جنہوں نے پہلے نماز كر لى ـ جنہيں امام خطبہ دے رہا تھا ـ اور جس كى نماز رہ گئى اور وہ اس كى قضاء ميں نماز ادا كرنا چاہے تو اس كے ليے نماز عيد ادا كرنا مستحب ہے.
تو وہ اسى طريقہ پر نماز عيد ادا كرے گا جس طرح نماز عيد ادا كى جاتى ہے، ليكن خطبہ نہيں.
امام مالك، امام شافعى، اور امام احمد، نخعى وغيرہ رحمہم اللہ كا يہى قول ہے.
اس ميں اصل اور دليل رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا يہ فرمان ہے:
" جب تم نماز كے ليے آؤ تو وقار اور سكون سے چل كر آؤ، جو تمہيں مل جائے وہ ادا كرو، اور جو فوت ہو جائے اس كى قضاء "
اور انس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے كہ جب ان كى نماز عيد امام كے ساتھ رہ جاتى تو وہ اپنے غلاموں اور اہل و عيال كو جمع كرتے، اور پھر ان كے غلام عبد اللہ بن ابى عتبہ انہيں دو ركعت پڑھاتے، اور اس ميں تكبيريں كہتے.
جو شخص عيد كے دن آئے اور امام خطبہ دے رہا ہو تو وہ خطبہ سنے اور پھر خطبہ كے بعد نماز كى قضاء كرے، تاكہ دونوں مصلحتوں كے مابين جمع ہو سكے.
اللہ تعالى ہى توفيق دينے والا ہے.