منگل 11 جمادی اولی 1446 - 12 نومبر 2024
اردو

مسلسل پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا شخص ہر نماز كے ليے عليحدہ وضوء كرے

2723

تاریخ اشاعت : 04-04-2007

مشاہدات : 7708

سوال

ميرے علم كے مطابق جو شخص كسى بنا پر اپنى طہارت قائم نہ ركھ سكے مثلا مسلسل پيشاب كى بيمارى وغيرہ ميں مبتلا شخص تو مشقت كى بنا پر اس كے ليے بار بار غسل كرنا واجب نہيں، بلكہ اس كے ليے ہر فرضى نماز سے قبل وضوء كى تجديد كرنا ضرورى ہے.
ليكن اگر دونوں نمازوں كے درميان والا وقفہ كم ہو، مثلا كسى عذر كى بنا پر عصر كى نماز ميں تاخير ہو گئى اور نماز مغرب سے قبل نصف گھنٹہ ادا كى تو كيا وہ نماز مغرب كے ليے دوبارہ وضوء كرے، حالانكہ وقفہ تو بہت ہى كم ہے؟
اور اسى طرح نماز جمعہ كے ليے كيا گيا وضوء نماز عصر كے ليے وضوء شمار ہو گا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلسل پيشاب كى بيمارى ميں مبتلا شخص كے ليے ہر نماز كا وقت شروع ہونے پر عليحدہ وضوء كرنا ہو گا، چاہے اس نے پہلى نماز كے ليے ابھى كچھ دير قبل ہى وضوء كيا ہو.

يہ اس ليے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے استحاضہ كى بيمارى ميں مبتلا عورت كو ايسا كرنے كى ہى تعليم دى تھى، جيسا كہ درج ذيل حديث سے ثابت ہوتا ہے:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ فاطمہ بنت ابى حبيش رضى اللہ تعالى عنہا كے پاس آئيں اور عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم مجھے استحاضہ آتا ہے اور ميں پاك نہيں ہوتى تو كيا ميں نماز چھوڑ ديا كروں ؟

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: نماز نہ چھوڑو، بلكہ يہ تو رگ كا خون ہے اور حيض نہيں، چنانچہ جب تجھے حيض آئے تو نماز ترك كردو، اور جب حيض ختم ہو جائے تو خون دھو كر نماز ادا كر لو"

ابو معاويہ اپنى حديث ميں كہتے ہيں:

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اور ہر نماز كے ليے وضوء كرو، حتى كہ وقت آجائے"

ابو عيسى ترمذى كہتے ہيں: عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى حديث حسن صحيح ہے، صحابہ كرام، تابعين عظام ميں سے كئى ايك اہل علم كا قول يہى ہے، اور سفيان ثورى، مالك، ابن مبارك، شافعى رحمہم اللہ كا يہى كہنا ہے كہ: استحاضہ والى عورت اگر اپنى ماہوارى سے زيادہ ايام سے تجاوز كرے تو غسل كرے، اور ہر نماز كے ليے عليحدہ وضوء كرے گى.

سنن ترمذى حديث نمبر ( 116 )، اور بخارى شريف ميں يہ حديث ( 221 ) نمبر ميں موجود ہے.

ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

استحاضہ كے خون كا حكم حدث والا حكم ہے، چنانچہ وہ ہر نماز كے ليے وضوء كرےگى، ليكن وہ اس وضوء كے ساتھ صرف ايك فرضى نماز ہى ادا كر سكتى ہے، چاہے حاضر ہو يا فوت شدہ، كيونكہ فرمان ہے: " پھر ہر نماز كے ليے وضوء كرو " جمہور اہل علم كا قول يہى ہے..

ديكھيں: فتح البارى، كتاب الحيض باب الاستحاضہ.

اور مستقل بے وضوء رہنے والا شخص مسلسل پيشاب اور ہوا خارج ہونے كى بيمارى ميں مبتلا كى طرح ہى ہے، اور اس كا حكم استحاضہ والى عورت كے حكم جيسا ہے.

آپ فرضى نماز كے ليے كيے گئے وضوء كے ساتھ اس فرضى نماز كا وقت ختم ہونے تك جتنے چاہے نوافل ادا كر سكتے ہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد