اتوار 28 جمادی ثانیہ 1446 - 29 دسمبر 2024
اردو

تیرہ برس کی لڑکی سے شادی کرنا

27305

تاریخ اشاعت : 04-12-2004

مشاہدات : 25558

سوال

میں چھبیس سالہ نوجوان ہوں اورایک اچھے گھرانے کی لڑکی سے تعارف ہوا ہے میری خواہش ہے کہ میں اس سے منگنی کرلوں لیکن مشکل یہ ہے کہ لڑکی ابھی تک چھوٹی اوراس کی عمر صرف تیرہ برس ہے ، تو کیا اخلاقی طور پر اس کے بارہ میں سوچا جاسکتا اوراس سے شادی کی جاسکتی ہے ؟
اورکیا دینی اورمعاشرتی اورقانونی طور پر ہماری عمر کا فرق قابل قبول ہوگا ؟
فرض کریں اگر شادی ہوجاتی ہے تویہاں ایک اورسوال پیدا ہوتا ہے کہ کنواری لڑکی سے توشادی پر اس کی رضامندی حاصل کی جاتی ہے لیکن کیا ایک تیرہ برس کی لڑکی ایسا فیصلہ کرنے پر قادر ہو گی ، اورکیا اسلام اس طرح کی شادی کی اجازت دیتا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ کے مابین عمر کے اس فرق کے باوجود اس لڑکی سے شادی میں کوئي حرج نہیں ، اہم چيز یہ ہے کہ وہ لڑکی دین والی اوراچھے اخلاق کی مالک ہونی چاہیے ، نکاح کے معاملہ میں یہی چيز مطلوب ہے اورشریعت بھی اسی کاحکم دیتی ہے اوراسی سے رضامندی و موافقت اوران شاء اللہ سعادت مندی کا حصول بھی ہوگا ۔

چھوٹی بچی سے شادی کی صحت پر اللہ تعالی کا مندرجہ ذیل فرمان دلالت کرتا ہے :

فرمان باری تعالی ہے :

اورتمہاری عورتوں میں سے وہ عورتیں جو حيض سے ناامید ہوچکی ہیں ، اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے ، اور ان کی بھی جنہیں ابھی حیض آنا شروع بھی نہیں ہوا ، اورحاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے الطلاق ( 4 ) ۔

اللہ تعالی نے جنہیں کم عمری کی بنا پر حیض نہیں آیا ان کی عدت تین ماہ مقرر کی ہے ، اوریہ تو معلوم ہی ہے کہ عدت تو نکاح کے بعد طلاق کی وجہ سے ہوتی ہے ، جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس کی شادی بھی ہوسکتی ہے اورپھر اسے طلاق بھی دی جاسکتی ہے ۔

اورنبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے چھ برس کی عمر میں شادی کی تھی اورجب نوبرس کی ہوئيں تو ان کی رخصتی ہوئي تھی ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت پچاس برس سے تجاوز کرچکے تھے ۔

امام بخاری اورامام مسلم رحمہما اللہ تعالی نے عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا سے بیان کیا ہے وہ کہتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ چھ برس کی عمر میں شادی کی اوراورمجھ سے نوبرس کی عمر میں بنا کی ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 3894 ) صحیح مسلم حديث نمبر ( 1422 ) ۔

اورجس لڑکی کی عمر تیرہ برس ہو اس بات احتمال ہے کہ وہ تو بالغ بھی ہوچکی ہو ، توجب وہ بالغ ہے پھر علماء کرام کا صحیح قول یہی ہے کہ شادی میں اس کی رضامندی شرط ہوگی ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

ابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( شادی شدہ عورت کا نکاح اس کے مشورہ کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ، اورکنواری لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر نہیں ہوگا ، صحابہ نے عرض کی اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی اجازت کیسے ؟

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : وہ خاموشی اختیار کرلے تو ( یہ اس کی اجازت ہے ) ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 5136 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1419 ) ۔

مزید تفصیل کے لیے آپ سوال نمبر ( 22760 ) کے جواب کا بھی مطالعہ کریں ۔

اوراگر وہ لڑکی بالغ نہیں ہوئي تو پھر اس کے والد کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ وہ اس کی شادی کردے اوراس کے لیے اس کی اجازت حاصل کرنی لازم نہيں ہوگی ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

چھوٹی کنواری بچی کے بارہ میں کوئي اختلاف نہیں ( یعنی اس کا والد اس کی شادی کرے گا چاہے وہ ناپسند ہی کرتی رہے )

ابن المنذر رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اہل علم میں سے جن سے بھی ہم نے علم حاصل کیاہے اس بات پر متفق ہیں اوران کا اجماع ہے کہ چھوٹی کنواری بچی کا نکاح اس کے والد کے جائز ہے ، اورجب والد اپنی چھوٹی بچی کی اس کے کفو اورمناسب لڑکے سے شادی کردے تو بچی کی ناپسندیدگي اورنہ کرنے کے باوجود والد کے لیے اس کی شادی کرنا جائز ہے ۔ دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 9 / 398 ) ۔

لیکن امام احمد سے یہ بیان کیا گيا ہے کہ جو لڑکی نو برس کی ہوجائے تو وہ بالغ لڑکی کے حکم میں ہوگي اوراس کی اجازت حاصل کرنی واجب ہے ، تو اس لیے اگر والد احتیاط کرے اوراس کی اجازت حاصل کرلے تو یہ بہتر اور اچھا ہوگا ۔ دیکھیں المغنی ( 8 / 398 - 405 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب