الحمد للہ.
اول:
اگر ماں کے علاج کی ضرورت پڑے اور ماں کا کوئی ذاتی مال نہ ہو تو پھر اولاد پر علاج کروانا واجب ہے بشرطیکہ ان میں علاج کروانے کی استطاعت ہو؛ کیونکہ علاج معالجہ بھی نان نفقہ میں شمار ہوتا ہے، اور ماں کا خرچہ صاحب استطاعت اولاد پر واجب ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ اس بارے میں "المغنی" (8/ 168) میں لکھتے ہیں:
"آدمی کو والدین کا خرچہ اٹھانے پر مجبور کیا جائے گا، اسی طرح اس کی اپنی اولاد چاہے بیٹے ہوں یا بیٹیاں، بشرطیکہ اولاد غریب ہو اور آدمی کے پاس ان پر خرچہ کرنے کی استطاعت ہو۔
بنیادی طور پر والدین اور اولاد کا خرچہ آدمی پر فرض ہے، اس کے دلائل کتاب و سنت اور اجماع سے ملتے ہیں، قرآن مجید میں اس کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے:
فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ
ترجمہ: اگر وہ تمہارے لیے دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو۔ [الطلاق: 6]
تو اس آیت کریمہ میں اللہ تعالی نے دودھ پلانے کی اجرت بچے کے باپ پر واجب قرار دی ہے۔
ایک اور مقام پر فرمایا:
وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ
ترجمہ: اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو۔ [البقرة: 233]
ایسے ہی اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
ترجمہ : اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے تم اس کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ [الإسراء: 23] لہذا جب والدین کو خرچے کی ضرورت ہو تو ان پر خرچ کرنا بھی احسان میں شامل ہو گا۔
احادیث مبارکہ میں بھی اس چیز کی ترغیب ہے، چنانچہ بخاری اور مسلم میں ہے کہ: (نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ہند سے فرمایا: تم اپنے اور بچوں کیلیے اتنا لے سکتی ہو جس سے تمہاری ضرورت پوری ہو)
اور اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (سب سے بہترین کمائی وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھ سے کمائے اور اولاد بھی انسان کی کمائی ہوتی ہے) ابو داود
اور اجماع سے اس کی دلیل یہ ہے کہ: ابن منذر کہتے ہیں: "اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ غریب والدین جن کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں ہے نہ ہی ان کے پاس کوئی مال ہے تو ان کا خرچہ اولاد پر لازمی ہے۔ اسی طرح جنہیں ہم اہل علم سمجھتے ہیں سب کے سب اس بات پر متفق ہیں کہ آدمی پر ان بچوں کا خرچہ واجب ہے جن کے پاس کچھ نہیں ہے۔"
اس کی ایک یہ بھی وجہ ہے کہ جس طرح آدمی کا ٹکڑا اولاد ہوتی ہے تو اسی طرح اولاد بھی اپنے باپ کا ٹکڑا ہوتی ہے، تو جس طرح آدمی پر لازمی ہے کہ وہ اپنی اولاد پر خرچ کرے اور اہل خانہ کی ضروریات پوری کرے تو اسی طرح آدمی کی اولاد پر بھی واجب اور ضروری ہے کہ وہ اپنے والدین کی ضروریات پوری کرے" ختم شد
دوم:
اگر اولاد کے پاس وسائل نہ ہوں اور وہ اپنی والدہ کا علاج کروانے کے لیے قرضہ اٹھائیں تو:
اگر انہوں نے قرضہ اٹھاتے ہوئے نیت کی تھی کہ وہ یہ رقم واپس لیں گے تو وہ واپس لے سکتے ہیں، لہذا اگر والدہ کے پاس رقم لوٹانے کی استطاعت ہو تو والدہ سے رقم لے سکتے ہیں، یا ان کی وفات کے بعد ان کے ترکے سے منہا کر سکتے ہیں۔
اور اگر انہوں نے قرضہ اٹھاتے ہوئے واپس لینے کی نیت نہیں کی تھی تو یہ ان کی جانب سے اپنی والدہ کی خیر خواہی ہے، اب وہ اس کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (16/205) میں ہے کہ:
"میرے والد صاحب کی عمر تقریباً 75 سال ہے اور وہ ابھی حیات ہیں، ان کا ایک مٹی کا پرانا گھر تھا اور اس کی جگہ بھی مناسب تھی تو میں نے پرانے گھر کو گرا کر نیا اور پختہ گھر اپنے ذاتی خرچ سے تعمیر کروا دیا۔۔۔ الخ"
تو کمیٹی کا جواب تھا:
"آپ نے ذکر کیا کہ والد کے گھر پر آپ نے اپنی ذاتی جیب سے خرچ کیا، تو اگر آپ اس وقت نیکی سمجھ کر یہ کر رہے تھے اور واپس پیسے لینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا تو آپ کو اس کا اجر ملے گا آپ اپنے والد سے اس رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔
لیکن اگر آپ نے اس وقت رقم واپس لینے کی نیت سے مکان پر خرچ کیا تھا تو ایسی صورت میں آپ واپس لے سکتے ہیں" ختم شد
سوم:
والد کے ترکے میں سے ملنے والی زمین سے متعلق یہ ہے کہ اگر آپ کا مقصد یہ ہے کہ اس زمین میں سے والدہ کو ملنے والے حصے میں سے آپ قرضے والی رقم منہا کریں تو اس کی تفصیل اوپر ذکر ہو چکی ہے۔
اور اگر سوال یہ ہے کہ بچوں کے حصے میں آنے والی وراثت میں قرضہ منہا کر کے بچوں میں تقسیم کیا جائے تو اس کا تعلق آپ لوگوں سے اور بڑے بھائی کی قرضہ لینے کی نیت پر ہے ۔ چنانچہ اگر سب بھائی اس بات پر متفق ہو گئے تھے کہ قرضے کی ادائیگی میں سب بھائی مل جائیں گے اور ترکہ تقسیم کرنے سے پہلے قرضہ منہا کرلیں گے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
اور اگر بڑا بھائی یہ کہتا ہے کہ اس نے قرض اس نیت سے لیا تھا کہ میں خود ہی اس کو اتاروں گا اور بھائیوں سے یہ رقم نہیں لوں گا تو پھر ایسی صورت میں وہ اکیلا ہی قرضہ چکائے گا، البتہ اگر بھائی پھر بھی مصر ہوں کہ انہوں نے بھی اس میں شامل ہونا ہے تو یہ پھر آپ کا داخلی معاملہ ہے۔
چہارم:
اگر ورثا بالغ ہیں اور سمجھدار ہیں تو پھر کسی بھی وارث کو ان کی حقیقی وراثت چھپانے کا کوئی حق نہیں ہے، چاہے اسے یہ خدشہ ہو یا نہ ہو کہ بھائی دولت کو ضائع کر بیٹھیں گے۔
اور اگر ورثا میں کوئی نابالغ ہے یا سمجھدار نہیں ہے تو پھر اس کا حصہ سرپرست یا وصی کی نگرانی میں ہو گا جسے عدالت متعین کرے گی۔
واللہ اعلم.