الحمد للہ.
ذیل میں مشکلات کواجمالی طورپرپیش کیا جاتا ہے :
1 - طواف : طواف کرنے والوں کی کثرت اورشدت ازدھام اورخاص کرحجراسود کے پاس بہت زيادہ بھيڑ ہوتی ہے اس لیے ہم یہ نصیحت نہيں کرتے کہ وہ حجراسود کا بوسہ لینے یا اس کا استلام کرنے کے لیے لوگوں کی بھیڑ میں اوراضافہ کریں ، کیونکہ اس سے حجاج کرام کواذیت اورتکلیف ہوتی ہے جواس فعل کے اجروثواب سے بڑھا گناہ ہے ، اوراسی طرح مسلمان شخص کوطواف کرنے کے لیے کوئي مناسب وقت اختیارکرنا چاہیے جبکہ لوگ کم ہوں اوروہ صحیح طرح سے عبادت بجالانےمیں کامیاب ہو ۔
علماء کرام نے اوپروالی منزل پربھی طواف کے جواز کا فتوی دیا ہے اگرچہ وہاں طواف کرنا مشقت سے خالی نہيں لیکن جس طرح عبادت کرنے کا حق ہے وہ وہاں صحیح طریقے سے حاصل ہوجاتی ہے ، اورپھرمسلمان لوگوں کی بھیڑ سے بھی دور ہوجاتا ہے اوراس ازدھام کی وجہ سے مرتب ہونے والے فساد سے بھی بچا رہتا ہے ۔
2 - سعی کے بارہ میں وہی کچھ کہا جاسکتا ہے جواوپرطواف کے بارہ میں بیان ہوا ہے ، اوریہ جگہ توطواف سے بھی زيادہ تنگ ہے اوربہت مشکل ہے ۔
3 - میدان عرفات میں وقوف کرنا :
اس لیے کہ وہاں ایک ہی وقت میں دنیا بھر سے آئے ہوئے سب حجاج کرام اکٹھے ہوجاتے ہیں ، اورپھروہاں سے ایک ہی وقت میں سب نے نکلنا بھی ہوتا ہے ، جس کی بنا پرمشقت بہت سے لوگوں کومشقت پیش آتی ہے چاہے وہ وقوف کے وقت ہویا پھر وہاں سے مزدلفہ جاتے وقت ۔
4 - مزدلفہ :
یہاں یہ مشکل پیش آسکتی ہےکہ جوکچھ دوسری جگہوں پرمیسرآسکتا تھا وہ یہاں میسرنہيں ہوتا ، ان میں سب سے اہم بیت الخلاء ہیں ۔
اس لیے ہم حجاج کرام کونصیحت کرتے ہیں کہ وہ میدان عرفات اورمزدلفہ میں کھانا پینا کم استعمال کریں تا کہ انہيں قضائے حاجب بھی ضرورت بھی کم ہی پیش آئے کیونکہ اس میں انہيں مشقت اٹھانا پڑے گی اورقضائے حاجت میں حرج ہوگا ۔
5 - جمرات کوکنکریاں مارتے وقت :
یہاں پرتولوگ اپنی جہالت کی بنا پرایک دوسرے سے گتھم گتھا ہوتے اوردھکم پیل اورلڑائي تک بھی کرتے ہیں ، اورپھر بہت دورسے ہی کنکریاں مارنا شروع کردیتے ہیں ، اوربعض تووہاں پرجوتے اورلکڑیاں بھی مارتے ہیں جس کی وجہ سے حجاج کرام کونقصان اورتکلیف ہوتی ہے ، اورسب لوگ وہاں ایک ہی وقت میں جمع ہوتے ہیں جس کی بنا پربھيڑ میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔
اس لیے ہم حجاج کرام سے نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بھيڑ کے وقت وہاں نہ جائيں یعنی دس ذوالحجہ کوجمرہ عقبہ کوفجر کے بعد اورباقی دوسرے ایام تشریق میں زوال کے وقت کنکریاں مارنی ہوتی ہیں اس وقت وہ وہاں جانے سے گـریزکریں تا کہ بھيڑ کم ہوجائے بلکہ رات کے وقت کنکریاں مارلیں کیونکہ رات کے وقت ازدھام کم ہوتا ہے اورپھر وہ اس کےساتھ صحیح اطمنان کے ساتھ اللہ تعالی کا ذکر بھی کرسکتے ہیں ۔
علماء کرام نے فتوی جاری کیا ہے کہ کنکریاں مارنے کا وقت زوال سے شروع ہوکرطلوع فجر تک رہتا ہے اس لیے لوگوں کی بھيڑ کے وقت جانے کی کوئي ضرورت نہیں کیونکہ یہ دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بنتا ہے ۔
6 - طواف وداع میں :
حجاج کرام یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھروں کوجلدواپس لوٹ جائيں اس وجہ سے وہ – تقریبا – ایک ہی وقت میں حرم جاتے ہیں یا پھر طواف کرتے ہیں یا مکہ سے نکلتے ہیں جس کی وجہ سے انہيں تکلیف اوراذیت پہنچتی ہے ۔
اس لیے ہم حجاج کرام سے یہ گزارش کرینگے کہ وہ تیسرے دن تک تاخیر کریں اورتیسرے دن کی کنکریاں مار کر وہاں سے نکلیں اورجلدبازي سےکام نہ لیں تا کہ انہيں اجروثواب بھی زيادہ حاصل ہو اوربھیڑ سے بھی بچ جائيں ، کیونکہ تاخیر کرنے والے کوزيادہ ثواب ملتا ہے ، اورہم اسے یہ بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے گھر لوٹنے میں بھی تاخیر کرلے اگرچہ اسے کچھ دن وہاں رکنا بھی پڑے تا کہ اکثر حجاج کرام وہاں سے چلے جائيں اوروہ صحیح طریقے سے جس طرح ہمارا رب راضي ہوتا ہے اورپسند فرماتا ہے طواف کرسکے ۔
اجمالی طورپر حجاج کوپیش آنے والی مشکلات یہی ہیں ، اوریہ اللہ تعالی کی حکمت ہے کہ حج کے اعمال ایسی بیابان جگہ پرہوں جہاں پرنہ تو کوئي کھیتی اوردرخت ہوں اورسخت قسم کی گرمی والے علاقہ میں تا کہ اللہ تعالی اپنے بندوں میں سے خالص نیت والے کی تمیز کرے ، لھذا اس حق کی آواز تلبیہ کووہی بلند کرکے گھر سے نکلتا ہے جس کی نیت بھی خالص ہو ۔
یہاں یہ کہنا لازمی اورضروری ہے کہ یہ مشکلات مسلمان آدمی کواس عبادت کی ادائيگي سے نہيں روکتیں کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نےاپنی کتاب اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے فرض قرار دیا ہے ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی بتایا ہے کہ اجروثواب مشقت کے حساب نے ہوتا ہے ، لھذا جتنی مشقت زيادہ ہوگی اورمشکلات زيادہ آئيں اتنا ہی اجروثواب بھی زيادہ حاصل ہوتا ہے ۔
ام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا لوگ تودو نسک ( یعنی حج اورعمرہ ) ادا کر کےواپس لوٹ رہے ہیں اور میں نے ایک ہی کرکے تورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : انتظار کرو جب تم پاک صاف ہوجاؤ توتنعیم جاکروہاں سے احرام باندھ لینا ، پھرہمیں فلان جگہ پرآملنا ، راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں انہوں نے فرمایا کہ کل لیکن تیرے خرچے یا یہ کہا کہ تیرے مشکل کے حساب سے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1695 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1211 ) ۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کہنا کہ : ( لیکن تیری مشکل یا تیرے خرچہ کے حساب سے ) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت میں خرچہ اورمشکل کی وجہ سے اجروثواب بھی زيادہ ہوجاتا ہے ، اوریہاں سے وہ مشکل مراد ہے جس کی شریعت مذمت نہيں کرتی اوراسی طرح نفقہ بھی ۔ دیکھیں : شرح مسلم للنووی ( 8 / 152- 153 ) ۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی ان کی کلام پرتعلیق چڑھاتے ہوئے کہتے ہیں :
یہ ایسا ہی ہے ، لیکن یہ ضروری نہيں کیونکہ بعض اوقات کچھ عبادات دوسری عبادت میں بالکل ہلکی پھلکی ہوتی ہيں لیکن وہ اس سے اجروثواب میں وقت کے حساب سے زيادہ ہوتی ہیں مثلا رمضان المبارک کی راتوں کا قیام لیکن لیلۃ القدر کا قیام کرنا دوسری راتوں سے افضل ہے ، اورجگہ کی مناسبت سے بھی مثلا بیت اللہ میں دورکعت نماز کی ادائیگي دوسری جگہوں سے افضل اوراعلی ہوگي ، مالی اوربدنی عبادت کے شرف کی مناسبت سے مثلا فرضي نماز نفلی نماز میں لمبی رکعتوں اورزيادہ قرآت سے افضل ہے ، اورفرضی زکاۃ نفلی صدقہ سے افضل ہے ۔
عبدالسلام نے القواعد میں اسی طرف اشارہ کیا اورکہا ہے : نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک تھی ، اوریہ ان کے علاوہ دوسروں پرشاق ہے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اورکی مشقت کے ساتھ نماز کی ادائيگي نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مطلقا برابرنہيں ہوگي ، واللہ تعالی اعلم ۔ دیکھیں : فتح الباری لابن حجر العسقلانی ( 3 / 611 ) ۔
واللہ اعلم .