الحمد للہ.
رضاعت کے ذریعے سے حرمت ثابت ہونے کے لیے کچھ شرائط لازمی ہیں، جو کہ درج ذیل ہیں:
پہلی شرط: بچہ کم از کم پانچ بار سے زائد مرتبہ دودھ پیے، اس سے کم نہ ہو، امام احمد کے فقہی موقف کے مطابق یہی صحیح قول ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ “المغنی” (11 / 310)میں کہتے ہیں:
“ابو القاسم رحمہ اللہ کہتے ہیں: “جس رضاعت کے بعد حرمت میں کسی قسم کا شک نہیں ہوتا وہ کم از کم پانچ بار یا اس سے زیادہ بار دودھ پینے سے حاصل ہو گی۔”
یہاں دو مسائل ہیں:
پہلا مسئلہ: رضاعی حرمت کم از کم پانچ یا اس سے زیادہ بار دودھ پینے سے ثابت ہو گی ۔ یہی صحیح حنبلی فقہی مذہب ہے۔ اور یہی موقف سیدہ عائشہ، ابن مسعود، ابن زبیر، عطاء، طاؤس کا موقف ہے اور یہی امام شافعی کا موقف ہے۔۔۔” ختم شد
اس موقف کی دلیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے، وہ کہتی ہیں کہ: (قرآن میں نازل کیا گیا تھا کہ واضح طور پر دس بار دودھ پلانا حرمت کا سبب بن جاتا ہے، پھر انہیں پانچ بار واضح طور پر دودھ پلانے کے حکم سے منسوخ کر دیا گیا، تو جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فوت ہوئے تو بعض لوگ ان کی تلاوت کرتے تھے) اسے مسلم: (1452) نے روایت کیا ہے۔
علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ : پانچ بار دودھ پینے کا حکم انتہائی آخری وقت میں نازل ہوا، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم فوت ہو گئے اور کچھ لوگ ان پانچ رضعات والی آیات کو قرآن سمجھ کر پڑھ رہے تھے؛ کیونکہ انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ ان آیات کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے اس لیے کہ ان کے منسوخ ہونے کا معاملہ ابھی قریب ہی ہوا تھا، تو جب انہیں ان کی تلاوت منسوخ ہونے کا علم ہوا تو سب کا اس بات پر اجماع ہو گیا کہ ان آیات کی تلاوت منسوخ ہو گئی ہے۔
نسخ کی تین قسمیں ہیں: پہلی: جس آیت کا حکم اور تلاوت دونوں ہی منسوخ ہو جائیں، جیسے کہ دس رضعات کی آیات۔ دوسری: جس کی تلاوت منسوخ ہو لیکن حکم منسوخ نہ ہو، جیسے کہ پانچ رضعات والی آیات ۔۔۔” ختم شد
“شرح صحیح مسلم” (10 / 29)
ایک بار دودھ پینے کا مطلب یہ ہے کہ: بچہ دودھ پیتے پیتے خود ہی پستان چھوڑ دے، اسے ایک بار دودھ پینا شمار کیا جائے گا۔
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اگر یہ کہا جائے کہ یہ کیسے پتہ چلے گا کہ بچے نے ایک بار دودھ پیا ہے یا دو بار؟ اسے جاننے کا کیا طریقہ ہو گا؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ: لفظ “رضعہ” عربی زبان میں “فعلۃ” کے وزن پر ہے، جو کہ بلا شک و شبہ کسی بھی کام کے ایک بار کرنے پر بولا جاتا ہے، مثلاً: “ضربہ”ایک بار مارنا، یا چلنا۔ “جلسہ” ایک بار بیٹھنا۔ “أکلہ” ایک بار کھانا۔ چنانچہ جب بچے نے پستان منہ میں لیا اور اسے چوسنا شروع کر دیا، پھر بغیر کسی رکاوٹ کے بچے نے خود ہی پستان چھوڑ دیا، تو اسے ایک “رضعہ ” یعنی ایک بار دودھ پینا شمار کیا جائے گا۔ کیونکہ شریعت نے یہ لفظ اسی طرح مطلق استعمال کیا ہے۔ اس لیے اس لفظ کی حد بندی عرف کے مطابق کی جائے ، اور عرف میں “رضعہ” کا یہی معنی مراد لیا جاتا ہے جو بیان کیا گیا ہے۔ درمیان میں اگر بچہ کسی رکاوٹ کی وجہ سے پستان چھوڑ دے، مثلاً: سانس لینے کے لیے، یا تھوڑا سستانے کے لیے، یا کسی چیز کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے ، تھوڑی دیر دودھ چھوڑے رکھے لیکن پھر فوری پستان منہ میں لے لے، تو ایک بار ہی دودھ پینے میں شمار ہو گا، دو مرتبہ نہیں، بالکل اسی طرح جیسے کوئی کھانا کھاتے ہوئے مذکورہ چیزوں کی وجہ سے کھانا روک دے اور پھر دوبارہ کھانے لگے تو کوئی بھی اسے دو بارہ کھانا کھانا شمار نہیں کرتا، بلکہ اسے ایک بار کھانا کھانا کہا جائے گا تو اسی طرح یہاں دودھ پینے کا معاملہ ہو گا۔۔۔
جبکہ امام احمد رحمہ اللہ کا صاحب مغنی کے مطابق موقف یہ ہے کہ: اگر بچہ واضح طور پر اپنی مرضی سے پستان چھوڑ دے تو یہ ایک بار دودھ پینا ہے، اور اگر دوبارہ دودھ پینا شروع کر دے تو یہ دوسری بار دودھ پینا شمار ہو گا۔
لیکن اگر سانس لینے کے لیے دودھ چھوڑتا ہے، یا دوسرے پستان سے دودھ پینے کے لیے دودھ چھوڑے، یا کسی اور چیز کی طرف متوجہ ہونے کی وجہ سے پستان منہ سے نکال دے، یا دودھ پلانے والی خود پستان بچے کے منہ سے نکال لے، تو ہم دیکھیں گے کہ: اگر تو بچہ فوری دودھ نہیں پیتا تو یہ ایک رضعہ ہو گیا، لیکن اگر فوری دوبارہ دودھ پینے لگے تو یہاں دو موقف ہیں: ایک یہ کہ: یہاں سے دوسرا رضعہ شروع ہو گیا ہے، یہ موقف ابو بکر اور حنبل کی روایت کے مطابق امام احمد کی گفتگو اسی کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے؛ کیونکہ امام احمد نے یہ کہا ہے کہ: آپ بچے کو دودھ پیتے ہوئے دیکھتے نہیں ہیں کہ جب بچے نے سانس لینا ہوتا ہے تو پستان منہ سے نکال کر سانس لیتا ہے، یا تھوڑا سستا لیتا ہے؟ اگر بچہ ایسے کرے تو یہ ایک رضعہ مکمل ہو گیا۔
الشیخ [ابن قدامہ رحمہ اللہ ] کہتے ہیں: اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بچہ دوبارہ دودھ پینا شروع نہ کرے تو یہ ایک رضعہ ہے، اس لیے اگر بچے نے دوبارہ پینا شروع کر دیا تو یہ الگ سے رضعہ شمار ہو گا بالکل ایسے ہی جیسے بچہ اپنے اختیار سے پستان چھوڑے تو اسے مکمل ایک رضعہ شمار کیا جاتا ہے، اس لیے یہاں بھی مکمل رضعہ شمار کیا جائے گا۔
دوسرا موقف یہ ہے کہ: سارے کا سارا ایک ہی رضعہ ہے۔
میں [ابن قیم رحمہ اللہ ] کہتا ہوں کہ: امام احمد رحمہ اللہ کی گفتگو سے دونوں موقفوں کا احتمال ہے، پہلے موقف کے متعلق تو وہی بات ہے جو ابن قدامہ نے ذکر کی ہے، اس صورت میں امام احمد کا کہنا کہ: ” فهي رضعة ” اس کا مرجع دوسرا رضعہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور دوسرا موقف اس طرح کہ: یہی عبارت ” فهي رضعة ” کا مرجع پہلے اور دوسرے دونوں رضعوں کی طرف ہو۔ یہ موقف زیادہ اقرب محسوس ہوتا ہے؛ کیونکہ امام احمد رحمہ اللہ نے سانس لینے اور بچے کا تھوڑا سستانے کے لیے پستان کو چھوڑنا بھی امام احمد نے ایک ہی رضعہ شمار کیا ہے۔ تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اور دوسرے رضعے کو اکٹھا ایک ہی سمجھنا زیادہ اقرب ہے، بجائے اس کے کہ دوسرے کو الگ سے مستقل رضعہ شمار کریں، آپ اس پر غور کریں۔” ختم شد
“زاد المعاد” (5 / 511 – 513)
یہاں احتیاط کا تقاضا ہے کہ آپ اختلافی موقف سے بچنے کے لیے مکمل پانچ بار دودھ بچے کو پلائیں، اور ہر ایک بار دوسری بار سے بالکل الگ تھلگ ہو۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“حرمت ثابت کرنے والی رضاعت کون سی ہوتی ہے؟ کیا یہ ایک بار پستان منہ میں ڈال کر چوسنا ہے، یعنی بچہ پستان منہ میں ڈال کر اگر پانچ بار دودھ چوس لے چاہے ایک ہی سانس میں تو کیا اس سے حرمتِ رضاعت ثابت ہو جائے گی؟ یا رضعہ کا مطلب یہ ہے کہ: بچہ پستان منہ میں لے، اور پھر اسے چھوڑ دے، سانس لے کر دوبارہ پستان منہ میں لے لے؟ یا رضعہ کا مطلب بچے کا ایک بار سیر ہو کر دودھ پینا ہے؟ یعنی بچہ مختلف اوقات میں پانچ بار دودھ پیے اور ہر باری سابقہ باری سے بالکل الگ تھلگ ہو، اور جگہ بھی ایک نہ ہو؟
اس حوالے سے علمائے کرام کے یہی تین اقوال ہیں: اور راجح آخری موقف ہے۔ اسی کو ہمارے شیخ مکرم الشیخ عبد الرحمن سعدی رحمہ اللہ نے اختیار کیا ۔ اور اس کی وجہ یہ بیان کی کہ: ہم کسی کو کسی کے لیے محرم تبھی قرار دیں گے جب تک کوئی ایسی دلیل نہ مل جائے جس میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہ ہو، نہ ہی اس کا کوئی اور مطلب اور مفہوم لیا جا سکے۔ تو ان تینوں اقوال میں سے آخری موقف ہی ایسا ہے جس میں کسی قسم کا احتمال نہیں ہے نہ ہی اس کا کوئی اور مفہوم لیا جا سکتا ہے؛ کیونکہ یہ موقف سب سے محتاط ترین موقف ہے۔ چنانچہ اگر کسی بچے نے چار بار دودھ پیا ہے، اور ہر بار میں اس نے پانچ دفعہ سانس بھی لیا، تو راجح موقف کے مطابق حرمت ثابت نہیں ہو گی، تا آں کہ ہر بار دودھ پینا سابقہ باری سے بالکل الگ تھلگ نہ ہو۔ ” ختم شد
“الشرح الممتع” (12 / 114)
دوسری شرط:
دودھ اس وقت پلایا جائے جب بچہ دودھ پیتا ہو، اب اس کے لیے دو سال معتبر ہوں گے یا دودھ چھڑوانے کی مدت؟
اس بارے میں اہل علم کے دو موقف ہیں:
امام احمد رحمہ اللہ کا موقف دو سال کو معتبر سمجھنے کا ہے، ان کی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے: وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ترجمہ: مائیں اپنی اولاد کو دو سال مکمل دودھ پلائیں، یہ اس کے لیے ہے جو مدت رضاعت پوری کرنا چاہتا ہے۔ [البقرۃ: 233]
علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“امام مالک رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں سمیت دیگر اہل علم کی ایک جماعت نے اس آیت سے یہ حکم کشید کیا ہے کہ حرمت ثابت کرنے والی رضاعت جو کہ نسب کی طرح رشتوں کو محرم بنا دیتی ہے، وہ تبھی ہو گی جب دو سال کے دوران ہو؛ کیونکہ دو سال پورے ہونے سے رضاعت پوری ہو گئی، اور دو سال گزرنے کے بعد رضاعت معتبر نہیں ہو گی۔۔۔ یہی موقف زہری، قتادہ، شعبی، سفیان ثوری، اوزاعی، شافعی، احمد، اسحاق، ابو یوسف، محمد، اور ابو ثور رحمہم اللہ جمیعا کا ہے۔” ختم شد
تفسیر قرطبی: (4 / 109)
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس آئے تو سیدہ عائشہ کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ناگوار گزرا، جیسے آپ کو یہ اچھا نہ لگا ہو، تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یہ میرا رضاعی بھائی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (خیال کرنا کہ تمہارا بھائی کون ہے! رضاعت تبھی ثابت ہوتی ہے جب دودھ پینے سے بھوک مٹے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (5102) اور مسلم : (1455) نے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ رضاعت کے حوالے سے خوب احتیاط سے کام لینا کہ کیا رضاعت اپنی شرائط کے ساتھ ہوئی تھی ؟ یعنی رضعات اور ان کی مقدار اور دودھ پینے کا وقت شرائط کے مطابق تھا؟ کیونکہ رضاعت سے حرمت تبھی ثابت ہو گی جب شرائط بھی پوری ہوں۔۔۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا رضاعت تبھی ثابت ہو گی جب دودھ پینے سے بھوک مٹے۔ کا مطلب یہ ہے کہ: جس رضاعت سے حرمت ثابت ہوتی ہے، اور خلوت جائز ہو جاتی ہے وہ تب ہے جب دودھ کی وجہ سے بچے کی بھوک ختم ہو؛ کیونکہ بچے کا معدہ کمزور ہوتا ہے اس لیے اسے صرف دودھ ہی کافی ہوتا ہے ، اسی دودھ سے بچے کا جسم بڑھتا ہے، اس طرح بچہ دودھ پلانے والی عورت کے جسم کا حصہ بن جاتا ہے، اور اس عورت کے بچوں کے لیے محرم قرار پاتا ہے۔” ختم شد
“فتح الباری” (9 / 148)
علامہ قرطبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ فرمانا کہ: (رضاعت تبھی ثابت ہوتی ہے جب دودھ پینے سے بھوک مٹے۔) یہ رضاعت کے حوالے سے قاعدہ کلیہ ہے جو واضح طور پر صراحت کر رہا ہے کہ رضاعت کے ذریعے حرمت ثابت ہونے کے لیے رضاعت کا اس مدت میں ہونا ضروری ہے جب رضاعت کے دوران بچے کو کھانے کی ضرورت نہ ہو، اور یہ تبھی ہو گا جب دو سال کے اندر اندر ہو۔” ختم شد
” المفهم” (4 / 188
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“دوسری شرط یہ ہے کہ: رضاعت اس وقت میں ہو جب بچے کی غذا دودھ ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا عمومی رویے کو دیکھا جائے گا یا بچے کی حقیقی حالت دیکھی جائے گی؟
اس حوالے سے علمائے کرام کے یہاں بھی دو موقف ہیں:
پہلا موقف: عمومی رویے کو دیکھا جائے گا، یعنی دو سال کے دورانیے کو معتبر سمجھا جائے گا، لہذا اگر کسی بچے کو دو سال کے بعد دودھ پلایا گیا ہے تو اس کے ذریعے رضاعت حاصل نہیں ہو گی۔ چاہے بچہ دو سال سے کم عمری میں بھی دودھ پی رہا ہو یا نہ پی رہا ہو۔ اگر دو سال سے پہلے رضاعت ہو گئی تو اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی، بچہ دودھ پی رہا ہو یا نہ پی رہا ہو۔
امام احمد کا یہی فقہی موقف مشہور ہے، حنابلہ نے اس کے لیے فرمانِ باری تعالی کو دلیل بنایا ہے:
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ ترجمہ: مائیں اپنی اولاد کو دو سال مکمل دودھ پلائیں، یہ اس کے لیے ہے جو مدت رضاعت پوری کرنا چاہتا ہے۔ [البقرۃ: 233]
ان کا کہنا ہے کہ: دو سال کی حد بندی لگانا دیگر کسی بھی حد بندی سے بہتر ہے؛ کیونکہ دو سال کا خیال رکھنا بہت آسان ہے، اور اسے بھولنا بھی مشکل ہے۔
لیکن یہ موقف اس اعتبار سے کمزور ہے کہ: دودھ چھڑوانے کے بعد دودھ پلانے سے بچے کی جسمانی نشو و نما میں کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ دودھ کی وجہ سے جسمانی نشو و نما نہیں ہو گی۔ اس لیے جب بچے کا دودھ چھڑوا دیا گیا ہے تو اب چاہے وہ 18 ماہ کا ہی کیوں نہ ہو چکا ہو، اس میں اور چار سال کے بچے کو دودھ پلانے میں کوئی فرق نہیں ہے؛ کیونکہ بچے کو اس دودھ کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ بچہ دودھ سے نشو و نما نہیں پائے گا۔
اس کی تائید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (رضاعت نہیں ہو گی مگر جب رضاعت سے آنتیں کھل جائیں، اور دودھ چھڑوانے سے پہلے ہو۔) تو یہاں رضاعت کے مؤثر ہونے کی نفی ہے، صرف رضاعت کی نفی نہیں ہے؛ کیونکہ بچے کو دودھ اس کے بعد بھی پلایا جا سکتا ہے، تو مطلب یہ ہے کہ: مؤثر رضاعت وہی ہو گی جس سے بچے کی آنتیں کھل جائیں، اور رضاعت کے لیے دودھ چھڑوانے سے پہلے دودھ پلایا جائے۔
تو یہ دوسرا موقف اس معنی کے اعتبار سے قوی ہے، جبکہ پہلا موقف ضبط اور یاد رکھنے کے اعتبار سے قوی ہے۔ ” ختم شد
“الشرح الممتع” (12 / 114 – 115)
محسوس یہ ہوتا ہے کہ: دونوں اقوال میں سے کوئی بھی قول اپنایا جائے، بہ ہر حال آپ کے بچے کے لیے رضاعت مؤثر ہو گی ، اور اس سے حرمت بھی ثابت ہو گی؛ کیونکہ بچہ ابھی دو سال سے کم عمر کا ہے، اور ابھی اسے دودھ چھڑوایا بھی نہیں گیا۔
رضاعت کے معاملے میں یہ مراد ہر گزر نہیں ہوتا کہ بچہ صرف دودھ ہی پیتا ہو، بلکہ یہ مراد ہوتا ہے کہ بچہ دودھ بھی پیتا ہو، بچے سے دودھ بالکل چھڑوایا نہ گیا ہو، تو ایسے میں رضاعت کے ذریعے حرمت ثابت ہو جائے گی۔
اس صورت حال میں اگر بچہ دودھ کے ساتھ کوئی غذا بھی لیتا ہو تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؛ کیونکہ یہ بات تو سب کے ہاں مسلمہ ہے کہ جب بچہ ایک سال سے بڑا ہو جائے تو صرف دودھ پر گزارا نہیں کر سکتا۔
سوال میں امام احمد رحمہ اللہ کے فقہی موقف کی روشنی میں جواب طلب کیا گیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ: سوال میں مذکور بچے کی عمر میں رضاعت اگر شرائط کے ساتھ ہو تو اس سے حرمت بلا شک و شبہ ثابت ہو گی۔
واللہ اعلم