الحمد للہ.
سوال کا جواب دینے سے قبل رضاعت کے احکام بیان کرنا ضروری ہیں :
1 - یقینا کتاب وسنت اور اجماع سے رضاعت کا ثبوت ملتا ہے ۔
کتاب اللہ میں سے دلائل :
اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے :
اورتمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہے ، اور تمہاری دودھ شریک بہنیں النساء ( 23 )
سنت نبویہ میں بھی اس کی دلیل ملتی ہے :
ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( رضاعت سے بھی وہی ( رشتہ ) حرام ہے جو کہ نسب سے حرام ہوتا ہے ) صحیح بخاری وصحیح مسلم ( 1444 ) ۔
اوراجماع کی دلیل یہ ہے کہ :
علماء کرام کا اس پر اجماع ہے کہ رضاعت کی وجہ سے نکاح کی حرمت اوراسی طرح محرم اورخلوت ، ثابت ہوجاتی ہے اوردیکھنا بھی جائز ہوجاتا ہے ۔
2 - رضاعت کے موثر ہونے کی کچھ شروط ہیں :
- کہ رضاعت دوسال کے دوران ہو اس لیے کہ اللہ تعالی کافرمان ہے :
اورمائيں اپنی اولاد کوپورے دوبرس دودھ پلائيں ، یہ اس کے لیے ہے جومدت رضاعت پوری کرنا چاہے البقرۃ ( 233 ) ۔
- یہ رضاعت کی تعداد پانچ ہو یعنی بچہ پانج بار اپنی خوراک پوری کرے ، جس طرح کھانے میں ایک کھانا یا پھر پینے میں سے ایک پینا ہوتا ہے اسی طرح بچے کی بھی خوراک ہے جووہ پانچ پوری کرے یعنی دوسرے الفاظ میں کہ وہ ایک بار ماں کا دودھ اپنے منہ میں ڈالے اورپھر پینے کے بعد خود ہی باہر نکالے ، تواس طرح پانچ بار ہونا چاہیے ۔
لیکن بچہ اگر سانس لینے یا پھر ایک کو چھوڑ کر دوسرے کومنہ میں ڈالنے کے لیے نکالے تواسے ایک بار رضاعت شمار نہیں کیا جائے گا ۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا یہی مسلک ہے اورحافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے بھی اسے ہی اختیار کیا ہے ۔
رضعہ کی تعریف یہ ہے کہ : بچہ ایک باردودھ منہ میں ڈال کرچوسے حتی کہ وہ اس کے پیٹ میں جائے اوربچہ خود ہی اسے چھوڑ دے تویہ ایک رضعہ شمار ہوگا ۔
پانچ رضعات کی دلیل میں مندرجہ ذيل حدیث پیش کی جاتی ہے :
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ : قرآن مجید میں دس معلوم رضعات کا نزول ہوا تھا جن سے حرمت ثابت ہوتی تھی لیکن بعد میں انہیں پانچ رضعات کے ساتھ منسوخ کردیا گیا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات کے وقت بھی یہ پڑھی جاتی تھیں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1452 ) ۔
یعنی بہت ہی دیر بعد اس کی تلاوت منسوخ کردی گئي حتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ، اورکچھ لوگوں کواس کے منسوخ ہونے کی خبر نہ مل سکی ، جب اس کی تلاوت کا منسوخ ہونے کا انہیں بھی علم ہوا توانہوں نے بھی اسے ترک کردیا اورسب کا اس پر اتفاق ہوا کہ تلاوت منسوخ ہے اورحکم باقی رکھا گيا ہے ، یعنی حکم کے بغیر صرف تلاوت ہی منسوخ ہے ، یہ بھی نسخ کی اقسام میں سے ایک قسم ہے ۔
جب یہ ثابت ہوگيا تو اس سے یہ پتہ چلا کہ دوسال کے بعد رضاعت ثابت نہیں ہوگي جس سے حرمت ثابت ہوسکے ۔
جمہور علماء کرام کا مسلک یہی ہے ، ان کے دلائل میں مندرجہ بالا آیت اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے :
( اس رضاعت سے حرمت ثابت ہوتی ہے جس سے انتڑیاں بھرجائیں اوردودھ چھڑانے کی مدت سے قبل ہو ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1152 ) ترمذی رحمہ اللہ تعالی نے اسے حسن صحیح کہا ہے ۔
اوراکثراہل علم کے اورصحابہ کرام وغیرہ کا بھی عمل بھی اسی پر ہے کہ حرمت اسی رضاعت سے ثابت ہوتی ہے جودوسال سے کم عمر میں ہو اوردوبرس کی عمر کے بعد حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔ ا ھـ
اس پر صحابہ کرام سے بھی آثار موجود ہیں :
ابوعطیہ وداعی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ ایک آدمی عبداللہ بن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما کے پاس آیا اورکہنے لگا : میرے ساتھ میری بیوی تھی اس کا دودھ اس کے پستانوں میں رک گيا تومیں نے اسے چوس کرپھینکنا شروع کردیا ، بعد میں ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس گيا ، ابن عباس رضي اللہ تعالی عنہما نے کہا انہوں نے کیا فتوی دیا ؟
اس شخص نے ان کا فتوی بیان کیا ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما نے اس آدمی کا ہاتھ پکڑا اورابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ کوکہنے لگے کیا آپ اسے دودھ پیتا بچہ سمجھ رہے ہیں ؟ رضاعت تو وہ ہے جس سے خون اورگوشت بنے ، توابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے جب تک آپ لوگوں میں یہ حبرالامہ ابن مسعود رضي اللہ تعالی عنہما موجود ہیں مجھ سے کسی بھی چيز کے بارہ میں نہ پوچھو ۔ مصنف عبدالرزاق ( 7 / 463 ) حدیث نمبر ( 1389 ) ۔
اور امام مالک نے بھی موطا میں ( 2 / 603 ) میں ابن عمررضي اللہ تعالی عنہما سے روایت کیا ہے کہ :
رضاعت تو اس کے لیے ہے جس نے بچپن میں دودھ پلایا اوربڑے کی رضاعت نہیں ۔ اس کی سند صحیح ہے ۔
عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ تعالی بیان کرتےہیں کہ ایک شخص عبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہما کے پاس آیا اورمیں بھی ان کے ساتھ تھا وہ دار قضاء کے پاس آئے اوربڑے شخص کی رضاعت کےبارہ میں سوال کرنے لگے ؟
توعبداللہ بن عمر رضي اللہ تعالی عنہما کہنے لگے کہ ایک شخص عمربن خطاب رضي اللہ تعالی عنہ کے پاس آکرکہنے لگا میری ایک لونڈی تھی جس سے میں وطئی کیا کرتا تھا میری بیوی نے اسے دودھ پلادیا ، میں جب میں اس کے پاس جانے لگا تومیری بیوی کہنے لگی اس سے دور رہو ، اللہ کی قسم میں نے اسے دودھ پلادیا ہے
عمررضي اللہ تعالی عنہ کہنے لگے اسے سزا دو اوراپنی لونڈی کے پاس جاؤ اس لیے کہ رضاعت توبچے کی ہے ۔ موطا امام مالک ، اس کی سند صحیح ہے ۔
تو اس سے یہ ثابت ہوا کہ بیوی کا دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ، اس کا کچھ بھی اثر نہیں ۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
تحریم رضاعت میں یہ شرط ہے کہ وہ دوسال میں ہو ، اکثر اہل علم کا یہی قول ہے ، اوراسی طرح عمر ، علی ، ابن عمر ، ابن مسعود ، ابن عباس ، اورابوھریرہ رضي اللہ تعالی عنہم اورازواج مطہرات سے بھی روایت ہے صرف عائشہ رضي اللہ تعالی سے یہ ثابت نہیں ۔
امام شعبی ، ابن شبرمہ ، اوزاعی، امام شافعی ، اسحاق ، ابویوسف ، محمد ، ابوثور ، بھی اسی کے قائل ہیں اورامام مالک کی ایک روایت بھی اسی طرح کی ہے ۔
تو اس بنا پر بیوی کا دودھ چوسنا کوئي اثرانداز نہیں ہوتا اگرچہ اس کا ترک کرنا ہی اولی ہے ۔
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ تعالی سےاس مسئلہ کے بارہ میں پوچھا گیا توان کا جواب تھا :
بڑے کی رضاعت موثر نہیں ، اس لیے کہ رضاعت وہ موثر ہے جوپانچ یااس سے زائد رضعات ہو اور ہو بھی دو برس کی عمر تک دودھ چھڑانے سے قبل ، تواس بنا پر ہم اگرکوئي اپنی بیوی کا دودھ چوستا ہے یا پھر وہ پیتا ہے تواس کا بیٹا نہیں بنے گا ۔
دیکھیں فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 338 ) ۔
واللہ اعلم .