الحمد للہ.
اول:
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے والد کو شفا یاب فرمائے اور عافیت سے نوازے، اور اللہ تعالی آپ کی جملہ مساعی پر آپ کو جزائے خیر سے نوازے۔
نجاست کی صفائی کرتے ہوئے آپ دستانے پہنتے ہیں یہ اچھا عمل ہے؛ کیونکہ شرمگاہ کو ہاتھ لگانا حرام عمل ہے، اس لیے دستانے وغیرہ کی شکل میں حائل استعمال کرنا لازم ہے۔
جیسے کہ دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (25/283)میں ہے کہ:
"آپ معذور افراد کی خدمت کرتے ہیں اس پر آپ کو ان شاء اللہ اجر ضرور ملے گا کہ آپ ان کی جسمانی صفائی ستھرائی وغیرہ کا مکمل انتظام کر رہے ہیں، لیکن شرمگاہ کو ڈھانک کر رکھا جائے اور ہاتھ پر لفافہ یا جراب وغیرہ کوئی چیز چڑھا کر پھر ان کی جسمانی صفائی کی جائے۔" ختم شد
اگر والد محترم کی جسمانی صفائی کے لیے دستانہ پہننے کی وجہ سے ہچکچاہٹ ہے تو تب بھی اس میں کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ نجاست میں ہاتھ ڈالنے سے فطری طور پر ہچکچاہٹ پیدا ہوتی ہے، تو یہ فطری امر ہے۔
دوم:
آپ اپنے والد محترم کی شرمگاہ کی طرف نظر نہیں کر سکتے ، ہاں جب ضرورت ہو تو دیکھ سکتے ہیں، مثلاً: پیشاب کی نالی کو درست کرنا ہو تو یہ شرمگاہ دیکھے بغیر ممکن نہیں ہے۔
شرمگاہ پر نظر پڑنے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
جبکہ صفائی کے بارے میں یہ ہے کہ: آپ ستر کو ڈھانپ کر رکھتے ہوئے صفائی کی بھر پور کوشش کریں ، اور نجاست پردے کے نیچے سے دستانے وغیرہ پہن کر دھوئیں، جیسے کہ پہلے بھی گزر چکا ہے کہ براہ راست شرمگاہ کو ہاتھ لگانا درست نہیں ہے۔
اور اگر فرض کریں کہ آلہ تناسل اور مقعد وغیرہ کو براہ راست ہاتھ لگ جائے تو یہ صحابہ و تابعین اور دیگر اہل علم میں بہت سے علمائے کرام کے ہاں جن میں امام مالک، شافعی، اور احمد بھی شامل ہیں ، یہ ناقض وضو ہے۔
سوم:
اگر آپ کے والد محترم کو نماز کے وقت کا علم ہوتا ہے، تو پھر انہیں نماز لازما پڑھنا ہو گی، وہ کسی صورت میں نماز ترک نہیں کر سکتے۔
اگر آپ کی عدم موجودگی میں والد صاحب کی دیکھ بھال کرنے والا موجود ہو تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ مسجد میں نماز با جماعت ادا کریں۔
لیکن محض والد صاحب کا پریشان ہونا اس بات کی اجازت کا باعث نہیں بن سکتا کہ آپ مسجد میں جا کر با جماعت نماز ادا نہ کریں۔
لیکن اگر ایک دو بار والد صاحب کے پریشان ہونے پر آپ نے نوٹ کیا کہ والد صاحب کی پریشانی بڑھتی چلی جا رہی ہے اور یہ پریشانی اور بے چینی عمومی حالات سے بہت زیادہ ہے تو پھر ہمیں امید ہے کہ آپ پر کوئی حرج نہیں ہے کہ آپ با جماعت نماز کے لیے مسجد جانے کی بجائے والد صاحب کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ لیں، لیکن ساتھ یہ کوشش جاری رکھیں کہ آپ انہیں مسجد میں نماز با جماعت ادا کرنے کے لیے راضی کرنے کی کوشش کرتے رہیں، کہ ضرورت پڑنے پر آپ کو اپنے سے دور جانے کی اجازت دے دیں، مثلاً: نماز با جماعت کے لیے مسجد جانے کی اجازت دیں، یا دیگر انسانی ضروریات کے لیے جانے دیں، تاہم اس بات کا خیال رکھیں کہ جب آپ ان کے پاس نہ ہوں تو کوئی اور آپ کی جگہ پر موجود ہونا چاہیے۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (8918 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اسی طرح اگر آپ کی جگہ پر والد صاحب کا خیال رکھنے والا ہو تو آپ کے لیے جمعہ ترک کرنا جائز نہیں ہے، لیکن اگر آپ کے جانے کے بعد ان کے پاس کوئی نہیں ہو گا تو پھر آپ کو جمعہ ترک کرنے کی اجازت ہے اور آپ اپنے والد کے ہمراہ ظہر کی نماز ادا کریں گے۔
آپ کے والد کو جمعہ ترک کرنے کے اس وقت اجازت ہو گی جب انہیں مسجد جانے میں بہت زیادہ مشقت کا سامنا ہو۔
جیسے کہ "كشاف القناع" (1/ 495) میں ہے کہ:
"مریض کو جمعہ اور با جماعت نماز ترک کرنے کے لیے معذور سمجھا جائے گا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم جس وقت بیمار ہوئے تو مسجد میں نماز ادا کرنے کے لیے نہیں گئے بلکہ فرمایا: ابو بکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں۔ متفق علیہ۔۔۔ اسی طرح اس شخص کو نماز با جماعت اور جمعہ ترک کرنے کی اجازت ہے جسے اپنے دوست یا عزیز کی وفات کا خدشہ ہو اور وہ ان کے پاس بھی نہ ہو [تو نماز کے لیے جانے کی بجائے قریب المرگ کے پاس پہنچے] یا وہ مریض ہوں تو ان کی دیکھ بھال کے لیے ان پاس رہے کہ اگر مریض کے پاس کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے [تو اسے نماز با جماعت اور جمعہ سے غیر حاضری کی اجازت ہے] ایک بار سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کو سعید بن زید کی دیکھ بھال کے لیے بلایا گیا ، حالانکہ آپ اس وقت جمعہ کی تیاری کے لیے خوشبو دار دھواں لے رہے تھے، تو آپ سعید بن زید کے پاس گئے جمعہ کے لیے نہیں گئے۔
اس کی شرح میں کہا ہے کہ: ہمیں اس مسئلے میں کسی کے اختلافی موقف کا علم نہیں ہے۔" ختم شد
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"میرا بیٹا بیمار ہے اور ہسپتال میں داخل ہے، میں تین ماہ سے اس کے ساتھ ہسپتال میں ہوں، اس سارے عرصے میں میں نماز جمعہ کے لیے حاضر نہیں ہو سکا؛ کیونکہ میرا بیٹا چھوٹا ہے اور اسے میری ضرورت ہے، تو اس کا کیا حکم ہے؟
تو انہوں نے جواب دیا: جب تک آپ کے بیٹے کو آپ کی ضرورت ہے تو اس وقت تک آپ پر کچھ نہیں ہے؛ کیونکہ مریض کی دیکھ بھال کی ضرورت ایسا امر ہے جس کی وجہ سے مریض کی دیکھ بھال کرنے والے پر جمعہ اور نماز با جماعت ساقط ہو جاتی ہے، لیکن اگر آپ کے نماز کے لیے جانے کے دورانیے میں کوئی مریض کی دیکھ بھال کرنے والا موجود ہو تو پھر نماز با جماعت ساقط نہیں ہو گی۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (8/ 2)
چہارم:
مشقت کی صورت میں مریض کے لیے ظہر اور عصر، اسی طرح مغرب اور عشا کی نماز جمع تقدیم یا جمع تاخیر کر کے ادا کرنا جائز ہے۔
جیسے کہ "كشاف القناع" (2/5) میں ہے کہ:
"دو نمازوں کو جمع کرنے کے بارے میں فصل: ظہر اور عصر کو دونوں میں سے کسی ایک نماز کے وقت میں جمع کرنا جائز ہے، اسی طرح مغرب اور عشا کو دونوں میں سے کسی ایک کے وقت میں جمع کرنا جائز ہے، لہذا چار نمازیں ایک دوسرے کے ساتھ جمع ہو سکتی ہیں: ظہر اور عصر، مغرب اور عشا۔ یعنی جوڑے کی ہر نماز دوسری نماز کے وقت میں جمع ہو سکتی ہے، اگر پہلی نماز کے وقت میں دوسری پڑھیں تو اسے جمع تقدیم کہتے ہیں، اور اگر دوسری نماز کے وقت میں پہلی پڑھیں تو اسے جمع تاخیر کہتے ہیں، اس طرح نماز جمع کرنے کی اجازت کی 8 صورتیں ہیں: ۔۔۔ دوسری صورت یہ ہے کہ: مریض کو اکیلا چھوڑنے کی وجہ سے کمزوری اور مشقت برداشت کرنی پڑے گی، اور استحاضہ والی بیماری کی صورت میں عورت کو نمازیں جمع کرنے کی اجازت ثابت ہے، جبکہ امام احمد نے یہ دلیل دی ہے کہ مرض ، سفر سے زیادہ شدید مشقت والا ہے [لہذا اگر سفر میں نماز جمع ہو سکتی ہے تو مرض میں بالاولی ہو سکتی ہے۔] امام احمد نے سورج غروب ہونے کے بعد سنگھی لگوائی پھر رات کا کھانا کھایا اور پھر مغرب اور عشا کی نماز جمع کر کے ادا کی۔" ختم شد
پنجم:
جب ضرورت ہو تو والد کی مقعد میں انگلی ڈال کر فضلہ نکالنے کی اجازت ہے، بشرطیکہ کوئی دستانہ وغیرہ پہنا ہوا ہو۔
ششم:
آپ نے جو حقوق ادا کرنے ہیں ان کی ادائیگی میں سستی کرنے کی بالکل بھی اجازت نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں ظلم پایا جا رہا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان بھی ہے کہ: (غنی شخص کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے۔) اس حدیث کو بخاری: (2400) اور مسلم: (1564) نے روایت کیا ہے۔
اور آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ ان حقوق کی ادائیگی کے لیے بھر پور کوشش کریں چاہے اس کے لیے آپ اپنی طرف سے کسی کو نمائندہ بنا دیں۔
ہفتم:
والدین کو ایصال ثواب کا مسئلہ مختلف فیہ ہے، افضل یہ ہے کہ آپ ایسا نہ کریں، آپ والدین کے لیے کثرت سے دعائیں کریں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (46698 ) اور (20996 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔
پھر چونکہ والدین نے ہی آپ کو پڑھایا لکھایا، اور قرآن کریم حفظ کرنے کی بھر پور ترغیب دی، تو اس لیے امید ہے کہ والدین کو بھی آپ کی ساری تلاوت قرآن کا ثواب ملتا رہے گا؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس شخص نے کسی ہدایت والے کام کی دعوت دی، تو داعی کو اس ہدایت پر عمل کرنے والوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا، اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔ جس شخص نے کسی گناہ والے کام کی دعوت دی، تو داعی کو اس گناہ پر عمل کرنے والوں کے گناہ کے برابر گناہ ملے گا، اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں بھی کسی قسم کی کمی نہیں کی جائے گی۔) مسلم: (4831)
ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے والد کو عافیت سے نوازے اور آپ کو بھر پور ثواب اور نیکیاں عطا فرمائے۔
واللہ اعلم