ہفتہ 22 جمادی اولی 1446 - 23 نومبر 2024
اردو

سچی توبہ کی کیا شرائط ہیں؟نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان: (ندامت توبہ ہوتی ہے) کا کیا مطلب ہے؟

سوال

پہلے سے سر زد ہوئے گناہ سے توبہ بلا ندامت ہو سکتی ہے؟ نیز یہ بتلائیں کہ توبہ کے لیے ندامت کی کیا شرائط ہیں؟

الحمد للہ.

اول:

صحیح توبہ کی شرائط یہ ہیں:

  1. جو گناہ ہو رہا ہے اسے چھوڑ دیں۔
  2. ماضی میں ہونے والے گناہ پر پشیمان ہوں۔
  3. دوبارہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم

اور اگر گناہ کا تعلق حقوق العباد میں سے مال، جان یا عزت سے تعلق رکھتا ہے تو پھر چوتھی شرط بھی ہے کہ:

  1. جس کی حق تلفی ہوئی ہے اس سے معافی مانگ لی جائے یا اسے اس کا حق دے دیا جائے۔

اللہ تعالی نے سچی توبہ کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا تُوبُوا إِلَى اللَّهِ تَوْبَةً نَصُوحًا عَسَى رَبُّكُمْ أَنْ يُكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللَّهُ النَّبِيَّ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے حضور سچی توبہ کرو کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری برائیاں دور کر دے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہیں۔ اس دن اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہو گا (اور) وہ کہہ رہے ہوں گے : ’’اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کر دے اور ہمیں بخش دے یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے‘‘ [التحریم: 8]

سچی توبہ کا معنی:

امام بغوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"سچی توبہ کے مفہوم کے متعلق مختلف آرا ہیں:

چنانچہ عمر، ابی بن کعب اور معاذ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: سچی توبہ اسے کہتے ہیں انسان توبہ کرے تو دوبارہ گناہ نہ کرے جیسے تھن سے نکلا ہوا دودھ دوبارہ واپس نہیں جاتا۔

حسن بصری رحمہ اللہ کے مطابق : انسان ماضی کے گناہوں پر نادم ہو اور دوبارہ گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم رکھتا ہو، سچی توبہ کہلاتا ہے۔

کلبی رحمہ اللہ کہتے ہیں: زبان سے استغفار کرے، دل سے پشیمان ہو، اور بدن کو گناہ سے دور رکھے۔

سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے مطابق: ایسی توبہ کو کہتے ہیں جس سے انسان کو حقیقی فائدہ ہو۔

قرظی کہتے ہیں: سچی توبہ کے لیے چار امور ہیں: زبان سے استغفار کرے، عملی طور پر گناہ ترک کر دے، دل میں گناہ نہ کرنے کا پختہ عزم رکھے اور برے دوستوں کی صحبت سے دور رہے۔" ختم شد
"تفسير البغوی" (8/169)

دوم:

ندامت توبہ کا سب سے بڑا رکن ہے

ندامت اور پشیمانی توبہ کا سب سے بڑا رکن ہے، چنانچہ عبد اللہ بن معقل بن مقرن کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، انہوں نے کہا کہ: میں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے: (ندامت توبہ ہوتی ہے۔) اسے امام احمد: (4012) نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔

کچھ اہل علم یہ کہتے ہیں کہ:
"توبہ کے لیے ندامت ہونا کافی ہے؛ کیونکہ ندامت کا مطلب یہ ہے کہ انسان گناہوں کو ترک کر دے، اور آئندہ گناہ کبھی بھی نہ کرنے کا عزم کرے ؛ اس لیے یہ دونوں چیزیں ندامت کی وجہ سے ہی پیدا ہوتی ہیں ندامت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتیں۔" ختم شد
"فتح الباری" (13/ 471)

ملا علی القاری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"(ندامت توبہ ہے) کیونکہ ندامت ہو گی تو توبہ کے بقیہ ارکان رونما ہوں گے کہ انسان گناہ ترک کر دے اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے، اور جہاں تک ممکن ہو سکے تلف شدہ حقوق کی ادائیگی کرے۔۔۔

اور کسی گناہ پر پشیمان ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انسان اسے گناہ سمجھے ، اس کا کچھ اور مطلب نہیں ہے۔" ختم شد
"مرقاة المفاتيح" (4/ 1637)

جیسے کہ ہم اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (247976 ) میں ذکر کر آئے ہیں۔

اگر ندامت سچی ہو گی تو گناہ گار ؛ گناہ ترک کر دے گا، اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم کرے گا، اس طرح توبہ مکمل ہو جائے گی اور توبہ کی تمام شرائط پوری ہوں گی۔

سوم:

دل میں ندامت پیدا ہونے کے لیے معاون امور

دل میں ندامت پیدا ہونے کے لیے معاون امور میں درج ذیل چیزیں شامل ہیں:

پہلی چیز: جہالت کے بعد اللہ تعالی کی معرفت

فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّمَا التَّوْبَةُ عَلَى اللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِنْ قَرِيبٍ فَأُولَئِكَ يَتُوبُ اللَّهُ عَلَيْهِمْ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا * وَلَيْسَتِ التَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السَّيِّئَاتِ حَتَّى إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ إِنِّي تُبْتُ الْآنَ وَلَا الَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌ أُولَئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
ترجمہ: اللہ تعالی صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول فرماتا ہے جو بوجہ جہالت کوئی برائی کر گزریں پھر جلد اس سے باز آ جائیں اور توبہ کریں تو اللہ تعالی بھی اس کی توبہ قبول کرتا ہے اللہ تعالی بڑے علم والا حکمت والا ہے۔ [17] ان کی توبہ نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آ جائے تو کہہ دے کہ میں نے اب توبہ کی اور ان کی توبہ بھی قبول نہیں جو کفر پر ہی مر جائیں یہی لوگ ہیں جن کے لئے ہم نے المناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔ [النساء: 17 - 18]

امام مجاہد رحمہ اللہ اللہ تعالی کے فرمان: { لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ السُّوءَ بِجَهَالَةٍ } کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: "اللہ تعالی کی نافرمانی کرنے والا ہر شخص معرفت الہی سے جاہل ہوتا ہے، تا آں کہ اللہ کی نافرمانی سے باہر نکل آئے۔" ختم شد
"الصحيح المسبور في التفسير بالمأثور" ( 2/19 )

دوسری چیز: اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہوں تو ذکر الہی میں مشغول ہو جائیں:

فرمانِ باری تعالی ہے:
وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِينَ * الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ * وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ * أُولَئِكَ جَزَاؤُهُمْ مَغْفِرَةٌ مِنْ رَبِّهِمْ وَجَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا وَنِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ
 ترجمہ: اور اپنے پروردگار کی بخشش اور اس جنت کی طرف دوڑ کر چلو جس کا عرض آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ وہ ان متقی لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے ۔ [133] جو خوشحالی اور تنگ دستی (ہر حال) میں خرچ کرتے ہیں اور غصہ کو پی جاتے ہیں اور لوگوں کو معاف کر دیتے ہیں۔ ایسے ہی نیک لوگوں سے اللہ محبت رکھتا ہے۔ [134] ایسے لوگوں سے جب کوئی برا کام ہو جاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکے؟ اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ۔ [135] ایسے لوگوں کی جزا ان کے پروردگار کے ہاں یہ ہے کہ وہ انہیں معاف کر دے گا اور ایسے باغات میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ (اچھے) عمل کرنے والوں کا کیسا اچھا بدلہ ہے۔ [آل عمران: 133 - 136]

سیدنا علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ کہتے ہیں: مجھے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی اور ابو بکر نے واقعی سچ کہا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (کوئی بھی شخص گناہ کرے اور پھر کھڑے ہو کر وضو کر کے نماز ادا کرے اور اللہ تعالی سے بخشش طلب کرے تو اللہ تعالی اسے بخش دیتا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللَّهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ یعنی: ایسے لوگوں سے جب کوئی برا کام ہو جاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکے؟ اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے ۔)

اس حدیث کوابو داود: (1521)، ترمذی: (406) اور ابن ماجہ: (1395)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے "صحيح الجامع" (5738) میں صحیح قرار دیا ہے۔

تیسری چیز: اللہ تعالی کی پکڑ سے بے خوف ہونے کے بعد دل میں اللہ تعالی کی پکڑ کا خوف پیدا کریں:

اس حوالے سے فرمانِ باری تعالی ہے:
أَيَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدُّهُمْ بِهِ مِنْ مَالٍ وَبَنِينَ * نُسَارِعُ لَهُمْ فِي الْخَيْرَاتِ بَلْ لَا يَشْعُرُونَ * إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ * وَالَّذِينَ هُمْ بِآيَاتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ * وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ (59) وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا آتَوْا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَاجِعُونَ * أُولَئِكَ يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَابِقُونَ
 ترجمہ: کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جو انہیں مال اور اولاد دیئے جا رہے ہیں [55] تو ہم انہیں بھلائیاں دینے میں جلدی کر رہے ہیں؟ معاملہ یوں نہیں بلکہ اصل بات کا انہیں شعور ہی نہیں [56] (بھلائیاں پانے والے اور اہل وہ لوگ ہیں) جو اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے رہتے ہیں [57] اور جو اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں [58] اور وہ اپنے پروردگار کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے [59] اور وہ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو بھی دیں اور ان کے دلوں کو دھڑکا لگا رہتا تھا کہ وہ اپنے پروردگار کے پاس لوٹ کر جانے والے ہیں۔ [60] یہی لوگ ہیں جو نیک کاموں میں جلدی کرنے اور ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ [المؤمنون: 55 - 61]

چوتھی چیز:

اللہ تعالی کی رحمت سے ناامیدی کے بعد امیدیں استوار کریں:
چنانچہ اللہ تعالی نے اپنے گناہگار بندوں کے بارے میں فرمایا:
قُلْ يَاعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (53) وَأَنِيبُوا إِلَى رَبِّكُمْ وَأَسْلِمُوا لَهُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ (54) وَاتَّبِعُوا أَحْسَنَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَكُمُ الْعَذَابُ بَغْتَةً وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ
ترجمہ: آپ لوگوں سے کہہ دیجیے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، اللہ یقیناً سارے ہی گناہ معاف کر دیتا ہے کیونکہ وہ غفور رحیم ہے۔ [53] اور اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کا حکم مان لو قبل اس کے کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہیں کہیں سے مدد بھی نہ مل سکے۔ [54] اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے پروردگار کے ہاں سے نازل ہوا ہے اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرو پیشتر اس کے کہ اچانک تم پر عذاب آ جائے اور تمہیں خبر بھی نہ ہو ۔ [الزمر: 53 - 55]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ : "مشرکوں میں سے کچھ لوگ بہت زیادہ قتل و غارت میں ملوث تھے، زنا بہت زیادہ کرتے تھے، تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: جس چیز کی آپ دعوت دیتے ہیں وہ بہت اچھی چیز ہے، لیکن کیا آپ ہمیں یہ بتلائیں گے کہ ہماری کارستانیوں کا بھی کوئی کفارہ ہے؟ تو پھر اللہ تعالی نے [اپنے بندوں کی خوبیاں کرتے ہوئے ] یہ آیات نازل فرمائیں: وَالَّذِينَ لاَ يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ، وَلاَ يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالحَقِّ، وَلاَ يَزْنُونَ ترجمہ: اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود سے دعائیں نہیں کرتے، نہ ہی اللہ تعالی کی بنائی ہوئی کسی معصوم جان کو قتل کرتے ہیں، اور نہ ہی زنا کرتے ہیں۔ [الفرقان: 68]
ساتھ سورت الزمر کی آیات بھی نازل ہوئی: { قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ، لاَ تَقْنَطُوا مِنْ رَحْمَةِ اللَّهِ} ترجمہ: آپ لوگوں سے کہہ دیجیے : اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا ۔[الزمر: 53] " اس حدیث کو امام بخاری: (4810) اور مسلم : (122) نے روایت کیا ہے۔

چہارم:

دل میں ندامت پیدا ہونے کے ثمرات

دل میں پشیمانی اور ندامت پیدا ہونے کے چار فوائد ہیں:

پہلا فائدہ: گناہ سر زد ہونے پر ہمیشہ دل میں درد اور دکھ کے ساتھ حسرت رہتی ہے۔

جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "یقیناً مومن اپنے گناہوں کو ایسے سمجھتا ہے جیسے وہ پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈرتا ہے کہ کہیں پہاڑ اس پر گر نہ جائے، جبکہ فاجر شخص اپنے گناہوں کو ناک پر بیٹھی مکھی کی طرح سمجھتا ہے کہ اسے ہاتھ کے اشارے سے اڑا دے۔" ابو شہاب نے ہاتھ سے مکھی اڑانے کا اشارہ کر کے دکھایا۔
صحیح بخاری: (6308)

 اور اس کی الٹ کیفیت یہ ہوتی ہے کہ انسان کو گناہ کرنے کا موقع ملے تو خوش ہو جائے ۔

جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: "گناہ کرنے کا موقع ملنے پر خوش ہونا ، گناہ سے بھی بد تر ہے، اسی طرح گناہ نہ کر سکنے پر مایوس ہونا بھی گناہ کرنے سے بد ترین عمل ہے۔"
اس اثر کو ابو نعیم نے "حلیۃ الاولیاء"(1/ 324) میں بیان کیا ہے۔

دوسرا فائدہ: دل میں دوبارہ گناہ نہ کرنے کی تمنا پیدا ہوتی ہے؛ بلکہ اسے دوبارہ گناہ میں ملوث ہونا اتنا ہی برا لگتا ہے جیسے اسے آگ میں پھینکا جانا ناپسند ہے۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (تین چیزیں جس شخص میں ہوں گی وہ ایمان کی مٹھاس پا لے گا: 1) اللہ اور اس کے رسول سے بڑھ کر کوئی بھی اسے محبوب نہ ہو۔ 2)کسی سے محبت کرے تو صرف اللہ کے لیے ۔ 3) اللہ تعالی کے کفر سے بچانے کے بعد دوبارہ کفر کی حالت میں واپس لوٹنا اسے ایسے ہی ناپسند ہو جیسے اسے آگ میں پھینکا جانا ناپسند ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6941) اور مسلم : (43) نے روایت کیا ہے۔

جبکہ اس سے متصادم کیفیت یہ ہو گی کہ انسان گناہ کی جگہ اور وقت پر گناہ کرنے کی جستجو میں رہے، گناہ کے اسباب اور اصحاب تلاش کرے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:
فَخَلَفَ مِنْ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا * إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَئِكَ يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ شَيْئًا
 ترجمہ: پھر ان کے بعد ان کے نالائق جانشین آئے جنہوں نے نمازوں کو ضائع کیا اور اپنی خواہشات کے پیچھے لگ گئے۔ وہ عنقریب گمراہی کے انجام سے دوچار ہوں گے۔ [59] البتہ ان میں سے جس نے توبہ کر لی، ایمان لایا اور اچھے عمل کئے تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان کی ذرہ بھر بھی حق تلفی نہ ہو گی۔ [مریم: 59 - 60]

تیسرا فائدہ: گناہ چھوڑ دے گا۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص گناہ ہی نہ چھوڑے تو یہ توبہ کے منافی ہے، اور اس بات کی دلیل ہے کہ توبہ صرف زبانی جمع خرچ تھی حقیقت میں توبہ نہیں تھی۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"میرے نزدیک اس مسئلے میں یہ موقف صحیح ہے کہ اگر کوئی شخص کسی گناہ سے توبہ کرے اور پھر اسی نوعیت کے کسی اور گناہ میں ملوث بھی ہو تو اس کی توبہ صحیح نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ایک گناہ سے توبہ کر لے اور پھر کسی اور ایسے گناہ میں ملوث رہے جو توبہ والے گناہ سے تعلق نہیں رکھتا نہ ہی اس کی کوئی قسم بنتی ہے تو اس کی توبہ صحیح ہے، مثلاً: اگر کوئی شخص سودی لین دین سے توبہ کر لے لیکن شراب نوشی سے توبہ نہ کرے تو پھر اس کی سودی لین دین والی توبہ صحیح ہے۔

لیکن اگر کوئی شخص سود کی ایک قسم مثلاً: ربا الفضل سے تو توبہ کر لے لیکن ربا النسیئہ سے توبہ نہ کرے، بلکہ دوسری قسم کے سود کو جاری رکھے ، یا اس کے الٹ کرے کہ دوسری قسم سے توبہ کر کے پہلی قسم کا سود کھاتا رہے ۔ یا ایک شخص چرس پینے سے توبہ کر لے لیکن شراب نوشی کرتا رہے یا شراب نوشی سے توبہ کر کے چرس پینے لگ جائے تو اس کی توبہ صحیح نہیں ہو گی۔

ایسے شخص کی مثال تو اس زانی جیسی ہے جو ایک لڑکی سے زنا کرنے کی توبہ کر لے لیکن کسی اور لڑکی سے زنا جاری رکھے ہوئے ہو اس سے توبہ نہ کرے، یا انگور کے نشہ آور جوس کو پینے سے توبہ کر لے لیکن دیگر نشہ آور جوس نوش کرتا رہے، تو یہ شخص در حقیقت توبہ تائب ہوا ہی نہیں ہے، یہ تو ایک قسم چھوڑ کر دوسری قسم کے گناہ میں ملوث ہو گیا ہے۔

لیکن جو شخص ایک گناہ سے کسی ایسے دوسرے گناہ میں ملوث ہو جائے جو پہلے کی جنس سے نہ ہو تو اس کا معاملہ ایسا نہیں ہے۔" ختم شد
"مدارج السالكين" (1/285)

چوتھا فائدہ: گناہ میں دوبارہ ملوث نہ ہونے کا عزم پیدا ہو گا۔

لیکن اگر پھر بھی دوبارہ اسی گناہ میں ملوث ہو جائے تو یہ کامل توبہ سے منافی ہے، اور اس طرح توبہ کا فائدہ کم ہو جائے گا۔ تاہم ختم نہیں ہو گی۔

الموسوعة الفقهية الكويتية ( 14/123 ) میں ہے کہ:
"اکثر فقہائے کرام کے ہاں جس گناہ سے توبہ کی گئی ہے دوبارہ کبھی بھی اسی گناہ میں ملوث نہ ہونا توبہ کی شرائط میں شامل نہیں ہے۔

توبہ کی بنیاد صرف اسی بات پر ہے کہ انسان گناہ چھوڑ دے، اس پر پشیمان ہو، اور آئندہ دوبارہ گناہ میں ملوث نہ ہونے کا پختہ عزم کرے۔

لیکن اگر توبہ کرتے ہوئے پختہ عزم کے باوجود دوبارہ اسی گناہ میں ملوث ہو گیا تو اس کا حکم ایسے ہی ہے جیسے اس نے نئے سرے سے گناہ کا ارتکاب کیا ہے، اس طرح اس کی سابقہ توبہ کالعدم نہیں ہو گی، نہ ہی سابقہ گناہ کا دھبہ جو کہ توبہ کرنے سے دھل گیا تھا دوبارہ واپس آئے گا، چنانچہ توبہ سے پہلے گناہ کا دھبہ ایسے ہو گیا تھا جیسے وہ گناہ تھا ہی نہیں، اس کی دلیل حدیث مبارکہ میں بالکل واضح لفظوں میں موجود ہے کہ: (گناہ سے توبہ کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اس کا گناہ تھا ہی نہیں۔)

جبکہ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ: پہلے گناہ کا دھبہ بھی واپس آ جائے گا؛ کیونکہ ان کے ہاں گناہ سے توبہ ایسے ہی جیسے کوئی انسان کفر سے اسلام قبول کرتا ہے۔ چنانچہ جب کوئی کافر اسلام قبول کرے تو اسلام پہلے والے سارے گناہ اور ان کے اثرات دھو ڈالتا ہے لیکن اگر یہی کافر مرتد ہو جائے تو اسلام سے پہلے والے گناہ کے اثرات اور دھبے واپس آ جاتے ہیں۔

جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ: توبہ شدہ گناہ دوبارہ نہ کرنا اور اپنی توبہ پر قائم رہنا یہ کامل توبہ کی شرط تو ہے اس سے توبہ کا مکمل فائدہ حاصل ہوتا ہے، البتہ یہ شرط توبہ کے صحیح ہونے کے لیے لازم نہیں ہے۔" ختم شد

پنجم:

گناہ نہ کرنے کا عزم کرنے کے فوائد

گناہ نہ کرنے کا عزم کرنے کے چار فوائد ہیں:

پہلا فائدہ: گناہ کا دروازہ بند ہو جاتا ہے:

وہ اس طرح کہ انسان ایسے دوستوں اور ذرائع سے دور رہتا ہے جن کی وجہ سے انسان دوبارہ گناہ میں ملوث ہو، جیسے کہ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا آپ فرما رہے تھے: (تم صرف مومن کو ہی اپنا ساتھی بناؤ؛ اور تمہارا کھانا متقی شخص ہی کھائے۔) اس حدیث کو ابو داود: (4832) اور ترمذی (2395)نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن قرار دیا ہے۔

دوسرا فائدہ: گناہ تک پہنچانے والے ذرائع بند ہو جاتے ہیں:

اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ انسان ایسے شبہات اور وسائل سے بچتا ہے جو انسان کو حرام کاموں میں ملوث کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔

چنانچہ سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا-اور نعمان نے اپنی دونوں انگلیوں کا اشارہ اپنے کانوں کی طرف کیا-، آپ فرما رہے تھے: (حلال کھلا واضح ہے اور حرام بھی کھلا ہوا واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان بعض چیزیں شبہ کی ہیں جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے ( کہ حلال ہیں یا حرام ) پھر جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بھی بچ گیا اس نے اپنے دین اور عزت کو بچا لیا اور جو کوئی ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو ( شاہی محفوظ ) چراگاہ کے آس پاس اپنے جانوروں کو چرائے۔ وہ قریب ہے کہ کبھی اس چراگاہ کے اندر گھس جائے ( اور شاہی مجرم قرار پائے ) سن لو ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین پر حرام چیزیں ہیں۔ ( پس ان سے بچو اور ) سن لو! بدن میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو گا سارا بدن درست ہو گا اور جہاں بگڑا سارا بدن بگڑ گیا۔ سن لو وہ ٹکڑا آدمی کا دل ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری: (52) اور مسلم : (1599) نے روایت کیا ہے۔

تیسرا فائدہ:
انسان گناہ سے متضاد افعال سر انجام دیتا ہے:

لہذا اگر کسی نے اللہ تعالی کی بات کو چھپایا تو اس کی توبہ تبھی ہو گی جب چھپائی ہوئی چیز بیان کرے گا، اسی طرح منافق کی توبہ تبھی قبول ہو گی جب اللہ تعالی کے ساتھ مخلص ہو کر دین اپنائے گا۔

امام ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"کسی بھی گناہ سے توبہ تبھی ہو گی جب گناہ کا متضاد عمل کیا جائے گا۔
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کی نازل کردہ آیات اور بینات چھپانے والے کی توبہ کے لیے اللہ تعالی نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ انہیں آگے بیان کرے؛ کیونکہ ان کا گناہ جب چھپانے کی صورت میں تھا تو ان کی توبہ تبھی صحیح ہو گی جب چھپائی ہوئی چیزوں کو عیاں اور بیان کریں گے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يَكْتُمُونَ مَا أَنزَلْنَا مِنَ الْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَىٰ مِن بَعْدِ مَا بَيَّنَّاهُ لِلنَّاسِ فِي الْكِتَابِ أُولَٰئِكَ يَلْعَنُهُمُ اللَّهُ وَيَلْعَنُهُمُ اللَّاعِنُونَ (159) إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَبَيَّنُوا فَأُولَٰئِكَ أَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَأَنَا التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ترجمہ: جو لوگ ہمارے نازل کردہ واضح دلائل اور ہدایت کی باتیں چھپاتے ہیں جبکہ ہم انہیں اپنی کتاب میں سب لوگوں کے لئے کھول کر بیان کر چکے ہیں تو ایسے ہی لوگ ہیں جن پر اللہ بھی لعنت کرتا ہے اور لعنت کرنے والے بھی لعنت کرتے ہیں ۔[159] البتہ جن لوگوں نے (اس کام سے) توبہ کرلی اور اپنی اصلاح کرلی اور (جو بات چھپائی تھی اس کی) وضاحت کردی تو میں ایسے ہی لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہوں اور میں ہر ایک کی توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہوں۔ [البقرة: 159 - 160]

اسی طرح منافق کی توبہ قبول ہونے کے لیے اخلاص کی شرط لگائی گئی ہے؛ کیونکہ منافق کا گناہ ریاکاری ہے، تو اللہ تعالی نے منافق کی سزا بیان کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّ الْمُنَافِقِينَ فِي الدَّرْكِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ وَلَن تَجِدَ لَهُمْ نَصِيرًا ترجمہ: منافق تو یقیناً جہنم کے سب سے نیچے کے طبقہ میں جائیں گے۔ ناممکن ہے کہ تو ان کا کوئی مددگار پالے۔ [النساء: 145]

پھر اس کے بعد فرمایا:
إِلَّا الَّذِينَ تَابُوا وَأَصْلَحُوا وَاعْتَصَمُوا بِاللَّهِ وَأَخْلَصُوا دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُولَٰئِكَ مَعَ الْمُؤْمِنِينَ وَسَوْفَ يُؤْتِ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا
ترجمہ: ہاں جو توبہ کر لیں اور اصلاح کر لیں اور اللہ تعالی پر کامل یقین رکھیں اور خالص اللہ ہی کے لئے دینداری کریں تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اللہ تعالی مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔ [النساء: 146] " مختصراً ختم شد
"مدارج السالكين" (1/370 )

چوتھا فائدہ:

عمل صالح تک رسائی ممکن بنانے والے ذرائع آسان ہو جاتے ہیں، اور انسان اطاعتِ الہی پر استقامت اختیار کرتا ہے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى
 ترجمہ: اور جو شخص توبہ کرے، ایمان لائے، اچھے عمل کرے اور راہ راست پر گامزن رہے تو اسے میں یقیناً بہت درگزر کرنے والا ہوں۔ [طہ: 82]

علامہ ابن عاشور رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں آیت کے لفظ: { اهْتَدَى } کا معنی یہ ہے کہ: انسان تسلسل کے ساتھ راہ راست پر ثابت قدمی کے ساتھ گامزن رہے ، یعنی اس لفظ میں اللہ تعالی کے اس فرمان کا مکمل مفہوم ہے کہ: إِنَّ الَّذِينَ قالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقامُوا فَلا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلا هُمْ يَحْزَنُونَ ترجمہ: یقیناً جنہوں نے کہا: ہمارا پروردگار اللہ ہے، پھر انہوں نے اس پر استقامت اختیار کی، تو ان پر نہ تو کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔[الاحقاف: 13] " ختم شد
"التحرير والتنوير" (16/276)

مندرجہ بالا تفصیلات سے ہمیں معلوم ہوا کہ توبہ میں ندامت کا کردار کتنا زیادہ ہے کہ ندامت در حقیقت اللہ رب العالمین کی طرف رجوع کے لیے بنیادی ترین چیز ہے، اسی کی بدولت انسان شیاطین کے بہکاوے میں نہیں آتا۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں سچی توبہ نصیب فرمائے اور ہماری توبہ کو شرف قبولیت سے نوازے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب