ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا نسب نامہ

سوال

میں نے سنا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نسب میں آنے والے نام الیاس میں اختلاف ہے؛ کچھ لوگ اسے الیاس [ہمزہ وصلی اور قطعی دونوں کے ساتھ] پڑھتے ہیں تو کچھ لیاس پڑھتے ہیں، مجھے آپ سے امید ہے کہ آپ دونوں ناموں کو جو جو اہل علم راجح قرار دیتے ہیں ان کے نام بتلائیں اور یہ بھی بتلائیں کہ ان دونوں میں سے راجح موقف کیا ہے؟

جواب کا خلاصہ

"الیاس" نامی شخصیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے متفق علیہ مشہور و معروف اور ثابت شدہ نسب نامے میں موجود ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ اسے کیسے پڑھا جائے ہمزہ قطعی کے ساتھ یا ہمزہ وصلی کے ساتھ، اس کے متعلق اہل علم کے دونوں اقوال ہیں، اور اس میں کوئی اتنا زیادہ مسئلہ بھی نہیں ہے جیسے کہ تفصیلی جواب میں واضح ہے، لیکن ہمزہ وصلی اور قطعی دونوں کے بغیر ہو ایسا کسی کا بھی موقف ہم نہیں جانتے کہ کسی نے یہ موقف ذکر کیا ہو، یا کوئی اہل علم اس کا قائل ہو۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم خوبیوں کے اعتبار سے اولادِ آدم میں ممتاز ترین، والد اور والدہ دونوں طرف کے نسب کے اعتبار سے افضل ترین ہیں، تمام اہل علم کے ہاں یہ بات مسلمہ اور معتبر ہے۔

جیسے کہ صحیح مسلم: (2276) میں سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (یقیناً اللہ تعالی نے کنانہ کو اسماعیل کی اولاد سے منتخب کیا، اور پھر قریش کو کنانہ کی اولاد سے منتخب کیا، اور پھر قریش میں سے بنی ہاشم کو اور بنی ہاشم میں سے مجھے چنیدہ بنایا۔)

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نسب عدنان تک متفقہ ہے، جبکہ عدنان سے اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام تک نسب نامے میں اختلاف ہے۔

علامہ ذہبی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب [آپ کا نام شیبہ ہے۔] بن ہاشم [آپ کا نام عمرو ہے۔] بن عبد مناف [آپ کا نام مغیرہ ہے۔] بن قصی [آپ کا نام زید ہے۔] بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ [آپ کا نام عامر ہے۔] بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔ عدنان کا تعلق سیدنا اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام سے ہے، اس شجرہ نسب پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔
تاہم عدنان سے اسماعیل تک نسب نامے کی تفصیلات میں اختلاف ہے۔ کچھ کہتے ہیں کہ درمیان میں نو نسلیں ہیں، کچھ نے سات بھی کہی ہیں، پھر کچھ افراد کے ناموں میں بھی اختلاف ہے۔ ایک قول کے مطابق درمیان میں 15 نسلیں ہیں، جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ 40 نسلیں ہیں-یہ موقف بعید محسوس ہوتا ہے- اگرچہ کچھ عرب سے یہ موقف بھی منقول ہے۔

عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ: "عدنان یا قحطان کے بعد والے نسب کو جاننے والا ہمیں کوئی نہیں ملا، اور جو ملے ہیں وہ اندازوں سے بیان کرنے والے ہیں۔"

ابو الاسود کہتے ہیں: میں نے ابو بکر بن سلیمان بن ابو حثمہ کو کہتے ہوئے سنا ، آپ قریش میں سب سے بڑے نسب کے ماہر اور فن کار شاعر تھے، آپ کہتے ہیں: " ہمیں کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو کہ معد بن عدنان کے بعد نسب جانتا ہو، کسی شاعر نے اپنے شعر میں یا کسی اور نے اپنی گفتگو میں اس سے آگے نسب کا تذکرہ نہیں کیا۔"

ابو عمر ابن عبد البر کہتے ہیں: "اس فن کے ماہرین نسب بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: آپ کا عدنان سے آگے نسب یوں ہے: عدنان بن ادد بن مقوم بن ناحور بن تیرح بن یعرب بن یشحب بن نابت بن اسماعیل بن ابراہیم الخلیل بن آزر [آپ کا نام تارح ہے۔] بن ناحور بن ساروح بن راعو بن فالخ بن عیبر بن شالخ بن ارفخشذ بن سام بن نوح علیہ السلام بن لامک بن متوشلخ بن خنوخ بن یرد بن مہلیل بن قینن بن یانش بن شیث بن آدم ابو البشر علیہ السلام۔

اسی موقف کو محمد بن اسحاق نے اپنی سیرت کی کتاب میں اپنایا ہے، لیکن ابن اسحاق کے کچھ شاگرد چند ناموں میں اختلاف کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ "

دیکھیں: "سیر اعلام النبلاء" (1/ 143 -145) "

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طبرانی نے جید سند کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا کہ : لوگوں کا نسب معد بن عدنان تک بالکل ٹھیک ہے۔" ختم شد
"فتح الباری" (6/ 529)

اسی طرح ابن حبان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا نسب عدنان تک صحیح ثابت ہے، لیکن عدنان کے بعد میرے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے جس پر میں اعتماد کر سکوں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا صحیح ثابت شدہ نسب یہ ہے : آپ صلی اللہ علیہ و سلم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب [عبد المطلب کا نام شیبہ ہے۔] بن ہاشم [ہاشم کا نام عمرو ہے۔] بن عبد مناف [عبدِ مناف کا نام المغیرہ ہے۔] بن قصی [قصی کا نام زید ہے۔] بن کلاب [آپ کا لقب مہذب ہے۔] بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر [آپ کا لقب قریش تھا۔] بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔
یہاں تک ماہرین انساب میں کوئی اختلاف نہیں ہے، عدنان سے آگے ابراہیم تک ماہرین انساب میں اختلاف پایا جاتا ہے۔" ختم شد
"السيرة النبوية وأخبار الخلفاء" (1/ 39)

ابن حزم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نسب نامہ یہ ہے : آپ ابو القاسم محمد بن عبد اللہ بن عبد المطلب [آپ کا نام شیبۃ الحمد ہے۔] بن ہاشم [آپ کا نام عمرو ہے۔] بن عبد مناف [آپ کا نام المغیرہ ہے۔] بن قصی [آپ کا نام زید ہے۔] بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان ۔
یہان تک آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا نسب بالکل صحیح ثابت ہے، اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے۔" ختم شد
"السيرة" (ص 4)

مزید کے لیے آپ دیکھیں: بیہقی رحمہ اللہ کی کتاب: "دلائل النبوة " (1/ 177)، ابو سعد نیشاپوری کی کتاب: "شرف المصطفى" (2/12)، علامہ ماوردی کی کتاب: "أعلام النبوة" (ص: 202) علامہ کلاعی کی کتاب: "الاكتفاء" (1/ 8) ابن سید الناس کی کتاب: "عيون الأثر" (1/ 26)، اور امام ابن کثیر کی کتاب: "السيرة النبوية" (1/ 20)۔

علامہ سہیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اِلیاس کے بارے میں ابن انباری کہتے ہیں: یہ لفظ ہمزہ کے نیچے زیر کے ساتھ پڑھا جائے گا، یعنی انہوں نے اسے بالکل اسی طرح پڑھا ہے جیسے ایک نبی کا نام بھی اِلیاس ہے، اس کے اشتقاق کے بارے میں مختلف اقوال ذکر کیے مثلاً: ممکن ہے کہ یہ {اَلْأَلْسِ} سے فعیال کے وزن پر ماخوذ ہو، اس کا معنی دھوکا دینا ہوتا ہے، اسی طرح {الْأَلْسَ } کا معنی عقل میں خلل بھی ہو سکتا ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ لفظ افعال کے وزن پر { رَجُلٌ أَلْيَسُ} سے ماخوذ ہو اور یہ اس شخص کے بارے میں کہا جاتا ہے جو نڈر اور بے باک ہو، میدان جنگ سے بھاگنے والا نہ ہو۔

[سہیلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:] ابن انباری کے علاوہ دیگر اہل علم کا موقف الیاس کے بارے میں زیادہ صحیح ہے کہ یہ مایوسی کے معنی میں ہے جو کہ امید کا متضاد ہوتا ہے، اس میں لام معرفہ بنانے کے لیے استعمال ہوا ہے، اور اس کا ہمزہ وصلی ہے، یہ موقف قاسم بن ثابت نے اپنی کتاب دلائل میں ذکر کیا ہے۔" مختصراً ختم شد
"الروض الأنف" (1/ 57)

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ "المواهب اللدنية" (1/ 61) میں کہتے ہیں:
"اِلیاس: ابن الانباری کے موقف کے مطابق ہمزہ کے نیچے زیر کے ساتھ ہے، جبکہ قاسم بن ثابت کے موقف کے مطابق اس پر زبر ہے جو کہ امید کا الٹ یعنی مایوسی ہے، اس میں لام معرفہ بنانے کے لیے اور ہمزہ وصلی ہے۔" ختم شد

علامہ زرقانی رحمہ اللہ "شرح المواهب" (1/ 147) میں کہتے ہیں:
"الیاس، نیچے نقطوں والی ی کے ساتھ ، مشہور یہی ہے کہ یہ ان کا نام تھا، جبکہ مغلطائی کی سیرت کی کتاب میں ہے کہ ان کا نام حبیب تھا۔ تاریخ الخمیس میں ہے کہ: ان کا نام الیاس اس لیے رکھا گیا کہ ان کی پیدائش ان کے والد کے بڑھاپے میں ہوئی تھی اور اس سے پہلے ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی، تو بڑھاپے اور مایوسی کی زندگی میں پیدائش ہونے کی وجہ سے انہیں الیاس نام دیا گیا آپ کی کنیت ابو عمرو تھی۔" ختم شد

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:
"الیاس" نامی شخصیت نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے متفق علیہ مشہور و معروف اور ثابت شدہ نسب نامے میں موجود ہے، اس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔

 اختلاف صرف اس بات میں ہے کہ اسے کیسے پڑھا جائے ہمزہ قطعی کے ساتھ یا ہمزہ وصلی کے ساتھ، اس کے متعلق اہل علم کے دونوں اقوال ہیں، اور اس میں کوئی اتنا زیادہ مسئلہ بھی نہیں ہے جیسے کہ واضح ہو چکا ہے۔

 لیکن ہمزہ وصلی اور قطعی دونوں کے بغیر ہو ایسا کسی کا بھی موقف ہم نہیں جانتے کہ کسی نے یہ موقف ذکر کیا ہو، یا کوئی اہل علم اس کا قائل ہو۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب