بدھ 12 جمادی اولی 1446 - 13 نومبر 2024
اردو

بیٹھ کر نماز پڑھتا ہے تو کیا اس ک ے لئے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہنا ضروری ہے؟

سوال

میں بیٹھ کر نماز پڑھنے والے کے لئے تکبیر تحریمہ سے متعلق سوال پوچھنا چاہتا ہوں، کیا اس کے لئے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہہ کر بیٹھنا ضروری ہے؟ اور اگر کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہنا بھول گیا ، اور اس نے بیٹھے ہوئے ہی تکبیر تحریمہ کہی تو کیا اسے دوبارہ نماز پڑھنی پڑے گی؟ ہوا یوں کہ میرے والد صاحب بیٹھ کر ظہر کی سنتیں پڑھ رہے تھے ، ان کے گھٹنے میں درد ہے، تو وہ رکوع اور سجدہ تو کر سکتے ہیں، لیکن کھڑے ہونے سے انہیں بہت زیادہ تکلیف ہوتی ہے، تو جس وقت انہوں نے فرض نماز پڑھی تو وہ بیٹھ کر ادا کی ، فرض نماز ادا کرنے کے لئے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ انہوں نے نہیں کہی تو کیا ان پر کچھ لازم آتا ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

فرض نماز کے لئے قیام رکن کی حیثیت رکھتا ہے اس کے بغیر نماز صحیح نہ ہو گی، اس لیے کسی کے لئے بھی بیٹھ کر نماز ادا کرنا جائز نہیں ہے، صرف قیام کی استطاعت نہ رکھنے والے کو اجازت ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (67934) کا جواب ملاحظہ کریں۔

علمائے کرام نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ فرض نماز کی تکبیر تحریمہ کے لئے کھڑے ہونا فرض ہے۔

جیسے کہ نووی رحمہ اللہ "المجموع" (3/296) میں کہتے ہیں کہ:
"تکبیر تحریمہ [یعنی اللہ اکبر]کے تمام حروف کھڑے ہونے کی حالت میں کہنا واجب ہے، چنانچہ اگر کوئی ایک حرف بھی حالت قیام کے علاوہ کسی اور حالت میں کہا تو اس کی نماز بطور فرض نہیں ہو گی" ختم شد

مالکی فقیہ اخضری لکھتے ہیں:
"نماز کے فرائض: معین نماز کی نیت، تکبیر تحریمہ، تکبیر تحریمہ کہتے ہوئے قیام، سورت فاتحہ، سورت فاتحہ پڑھتے ہوئے قیام، رکوع۔۔۔" ختم شد
خرشی رحمہ اللہ "شرح مختصر خليل" (1/264) میں نماز کے فرائض بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"غیر مسبوق اور استطاعت رکھنے والے نمازی کے لئے تکبیر تحریمہ کے واسطے کھڑا ہونا؛ لہذا بیٹھ کر یا جھکتے ہوئے  تکبیر تحریمہ کہنا کافی نہیں ہو گا،[ اس موقف کی دلیل اہل مدینہ کے] عمل   کی اتباع ہے۔" ختم شد

جبکہ موسوعہ فقہیہ کویتیہ (13/ 220) میں ہے کہ:
"جس نماز میں قیام کرنا فرض ہے اس نماز میں نمازی کے لئے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہنا واجب ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا حالانکہ آپ کو بواسیر کی شکایت تھی کہ: (کھڑے ہو کر نماز پڑھو، اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو بیٹھ کر نماز پڑھو، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو پہلو کے بل نماز ادا کرو)، سنن نسائی میں اس حدیث کے الفاظ میں یہ بھی اضافہ ہے کہ: (اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو چت لیٹ کر نماز ادا کرو) اور  قیام کمر کے سیدھے ہونے سے ہی ہوتا ہے۔

اس لیے بیٹھ کر یا جھکتے ہوئے تکبیر تحریمہ کہنا کفایت نہیں کرے گا، یہاں پر قیام سے مراد حکمی قیام بھی مراد ہے، تا کہ عذر کی حالت میں فرائض ادا کرتے ہوئے بیٹھ کر  قیام کرنے والا بھی شامل ہو جائے۔" ختم شد

مریض شخص کی نماز کے حوالے سے اصول یہ ہے کہ: مریض شخص نماز کے واجبات اور ارکان جس قدر ادا کرنے کی استطاعت رکھتا ہے انہیں بجا لائے گا اور جن کی استطاعت نہیں ہے وہ مریض سے ساقط ہو جائیں گے۔

چنانچہ اگر مریض شخص کھڑے ہو کر نماز کی ابتدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس پر کھڑے ہو کر نماز کی ابتدا کرنا واجب ہو گا، پھر جب کھڑا ہونا اس کے لئے مشکل ہو جائے تو بیٹھ جائے گا۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (263252) کا جواب ملاحظہ کریں۔

نیز فقہ مالکی کی کتاب: "مختصر خلیل" میں ہے کہ:
"اگر کھڑے ہو کر فاتحہ پڑھنے سے قاصر ہو تو بیٹھ جائے گا"

اس کی تشریح کرتے ہوئے حطاب رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ابن عبد السلام  کہتے ہیں: ۔۔۔ اس کے لئے یوں کرنا چاہیے کہ: اگر نماز میں کچھ دیر قیام  کی استطاعت بھی ہو تو اتنا ہی قیام کر لے، چاہے وہ قیام  صرف تکبیر تحریمہ  کہنے کی مقدار کے برابر ہو یا اس سے زیادہ؛ کیونکہ شریعت میں مطلوب یہ ہے کہ  قراءت کرتے ہوئے قیام کرے، چنانچہ اگر نمازی قیام یا قراءت کے کچھ حصے سے قاصر رہے تو جس قدر اس میں استطاعت ہے وہ پڑھے گا اور بقیہ حصہ اس سے ساقط ہو جائے گا۔ ختم شد
ابن فرحون رحمہ اللہ کہتے ہیں: مطلب یہ ہے کہ اگر سر چکرانے کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے کھڑے ہو کر سورت فاتحہ پڑھنے سے قاصر ہو جائے ، لیکن بیٹھ کر سورت فاتحہ پڑھ سکتا ہو  تو مشہور موقف یہی ہے کہ وہ جس قدر قیام کرنے کی استطاعت رکھتا ہے اتنا قیام کرے اور  باقی قیام اس سے ساقط ہو جائے گا، جبکہ سورت فاتحہ کا بقیہ حصہ بیٹھ کر مکمل کرے گا۔

(نوٹ:) مؤلف کی بات سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ مریض سے مکمل طور پر قیام کرنا ساقط ہو جائے گا حتی کہ تکبیر تحریمہ کے لئے بھی کھڑا ہونے کی ضرورت نہیں ہے، تو بات ایسے نہیں ہے۔ ہاں [مؤلف کی بات اس طرح درست ہو سکتی ہے] جب ان کی بات میں یہ قید موجود ہو کہ اگر مریض کھڑا ہو کر تکبیر تحریمہ کہے اور اس کے بعد بیٹھنے کی سکت نہ رکھے۔۔۔ [تو تکبیر تحریمہ کے لئے کھڑا ہونا بھی ساقط ہو جائے گا]" ختم شد
اختصار کے ساتھ ماخوذ از "مواهب الجليل" (2/5)

فقہائے احناف کی کتاب فتاوی عالمگیری (1/136) میں ہے کہ:
"چودہواں باب: مریض کی نماز کے بارے میں:
اگر مریض شخص کھڑا ہونے سے قاصر ہو تو بیٹھ کر نماز ادا کرے گا، رکوع اور سجدہ بھی اسی حالت میں کرے گا، یہی بات ھدایہ میں لکھی ہوئی ہے۔

قاصر ہونے کی تفصیل میں صحیح ترین موقف یہ ہے کہ: نماز میں کھڑا ہونے سے نمازی کو نقصان پہنچے۔۔۔

لیکن اگر کھڑا ہونے سے محض مشقت ہوتی ہے تو نماز کے لئے قیام ترک کرنا جائز نہیں ہے، الکافی میں بھی یہی لکھا ہے۔

اگر نمازی قیام کا کچھ حصہ تو کھڑا ہو سکتا ہے، مکمل قیام کے لیے کھڑے ہونا ممکن نہیں تو نمازی کو ایسی صورت میں حسب استطاعت کھڑا ہونے کا کہا جائے گا؛ حتی کہ اگر نمازی کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہنے کی استطاعت تو رکھتا ہے لیکن کھڑے ہو کر قراءت نہیں کر سکتا ، یا پھر مکمل قراءت کے دوران تو نہیں لیکن کچھ دیر قراءت کے دوران کھڑا ہو سکتا ہے تو  نمازی کو حکم دیا جائے گا کہ کھڑے ہو کر نماز کی تکبیر تحریمہ کہے  اور حسب استطاعت کھڑے ہو کر قراءت کرے، جب مزید کھڑے ہونے سے قاصر ہو جائے تو بیٹھ جائے۔۔۔" اختصار کے ساتھ اقتباس ختم ہوا

الشیخ محمد مختار شنقیطی  کہتے ہیں:
"ایسا معذور شخص جو کھڑے ہو کر قیام کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے گا۔۔۔

چنانچہ اگر تکبیر تحریمہ کے لئے قیام کرنے کی استطاعت رکھتا ہو  تو وہ یہ نہ کرے کہ آئے اور براہ راست بیٹھ جائے پھر تکبیر تحریمہ کہے، بلکہ وہ کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہے گا؛ کیونکہ اس کے لئے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہنا ممکن ہے، پھر اگر مزید کھڑے رہنا مشقت میں ڈالے تو بیٹھ جائے، اور اگر فالج زدہ شخص کی طرح کسی کے لئے کھڑا ہونا ممکن نہ ہو یا بہت مشکل ہو  تو وہ بیٹھ کر ہی تکبیر تحریمہ کہہ دے گا۔ لیکن اگر کھڑا ہونا ممکن ہے تو وہ کھڑا ہو گا اور کرسی پیچھے کی جانب دھکیل دے گا اس میں کوئی حرج نہیں ہے، کھڑا ہونے کے بعد مشقت محسوس ہونے لگے تو دوبارہ بیٹھ جائے۔ بعینہٖ اس فقہی قاعدے کے مطابق: "ضرورت کو بقدر ضرورت ہی رکھا جاتا ہے" اس قاعدے سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ  جو کام جس ضرورت کے پیش نظر جائز قرار دیا گیا وہ اسی ضرورت کے مطابق ہی جائز ہوتا ہے۔

چنانچہ ضرورت یہاں مطالبہ کرتی تھی کہ نمازی کے لئے کھڑے رہنا  ممکن نہیں تو ہم کہیں گے: کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہو اور پھر بیٹھ جاؤ۔

لیکن جب ضرورت کا مطالبہ یہ ہے کہ کھڑا ہونا سرے سے مشکل ہے تو ہم کہیں گے: بیٹھ کر تکبیر کہہ لو اس میں کوئی حرج نہیں۔

تو پہلی اور دوسری حالت کے لئے  الگ الگ حکم ہو گا، اور لوگوں کو اس کے متعلق آگہی بھی دی جائے گی؛ کیونکہ آپ ایک شخص کو دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بیٹھ کر تکبیر تحریمہ کہتا ہے حالانکہ وہ کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہنے کی استطاعت رکھتا ہے، بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ وہ کھڑے ہو کر کرسی اٹھا لے اور چلتا بنے، تو ایسے شخص کو یہ رخصت نہیں دی جا سکتی کہ وہ تکبیر تحریمہ جیسا رکن  بیٹھ کر ادا کرے، ایسے شخص کو متنبہ کیا جائے گا، ہاں جب ایسے نمازی کے لئے کھڑے رہنا ممکن نہ رہے تو ہم اسے کہیں گے: بیٹھ جائے" ختم شد
"شرح زاد المستقنع" (2/91) مکتبہ شاملہ کی ترتیب کے مطابق

چنانچہ مندرجہ بالا تفصیلات کے مطابق: اگر آپ کے والد کو معلوم تھا کہ  تکبیر تحریمہ کے لئے کھڑے ہونا ضروری ہے تو وہ اپنی نماز دہرائیں گے جس میں انہوں نے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ نہیں کہی۔

لیکن اگر انہوں نے بیٹھ کر نماز شرعی حکم سے لا علمی کی بنا پر ادا کی اور انہوں نے یہ سمجھا تھا کہ  جسے بیٹھ کر نماز ادا کرنے کی رخصت ملی ہے  وہ بیٹھ کر تکبیر تحریمہ بھی کہہ سکتا ہے تو پھر انہیں نماز دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (45648) اور (50684) کا جواب ملاحظہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب