جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

ایسے مریض کی نماز جو بیٹھ جائے تو کھڑا نہیں ہو سکتا اور اگر کھڑا ہو جائے تو بیٹھ نہیں سکتا۔

سوال

مریض کی نماز کی کیا کیفیت ہو گی جو بیٹھ جائے تو کھڑا نہیں ہو سکتا اور  اگر کھڑا ہو جائے تو بیٹھ نہیں سکتا؟ کیا وہ پوری نماز بیٹھ کر ادا کرے یا پھر ساری نماز میں کھڑا ہی رہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

نماز کے واجبات اور ارکان کے متعلق اصول یہ ہے کہ: نمازی شخص ان کو حسب استطاعت بجا لائے گا، اور جس رکن یا واجب کی استطاعت نہ ہو گی وہ اس سے ساقط ہو جائے گا۔

اس اصول کی بنا پر: اگر نمازی شخص کھڑے ہو کر نماز کا آغاز کر سکتا ہے تو اس کے لئے کھڑے ہو کر تکبیر تحریمہ کہنا لازمی ہے، پھر اگر مکمل طور پر رکوع کرنے کی استطاعت رکھتا ہو گا تو رکوع کرے گا، اور اگر استطاعت نہ ہو تو حسب استطاعت جھک کر رکوع کرے گا۔

اگر زمین پر سجدہ کرنے کی استطاعت ہو تو اس کے لئے زمین پر سجدہ کرنا واجب ہے۔

اور اگر زمین پر سجدہ کرنے کی استطاعت نہ ہو تو زمین یا کرسی پر بیٹھ کر جھکتے ہوئے سجدے کا اشارہ کرے گا۔

پھر اگر مریض شخص دوبارہ سے کھڑے ہونے کی استطاعت نہ رکھے تو اپنی پوری نماز بیٹھ کر مکمل کر لے، رکوع اور سجدے کے لئے جھک کر اشارہ کرے، اگر سجدہ کرنے کی استطاعت ہو تو پورا سجدہ کرے۔

اور اگر استطاعت نہ ہو تو سجدے کا اشارہ رکوع کے اشارے سے زیادہ جھکتے ہوئے کرے گا۔

اس طرح نماز ادا کرنے سے  اللہ تعالی کے اس فرمان کی عملی تعمیل ہو گی:   فَاتَّقُوا اللَّهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ   ترجمہ: پس تم اللہ سے حسب استطاعت ڈرو [التغابن:16]  

یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے اس فرمان کی عملی شکل بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب میں تمہیں کسی کام کا حکم دوں تو اسے حسب استطاعت بجا لاؤ) اس حدیث کو امام بخاری: (7288) اور مسلم : (1337)نے  روایت کیا ہے۔

فقہ مالکی کی کتاب: "مختصر خلیل "میں ہے کہ:
"اگر نمازی ہر رکن ادا کر سکتا ہو لیکن سجدہ کرنے کے بعد اٹھ نہ سکتا ہو تو  وہ ایک رکعت پوری  صحیح انداز میں ادا کرے گا اور پھر بقیہ نماز بیٹھ کر مکمل کر لے گا۔"

مختصر خلیل کی اس عبارت کی شرح بیان کرتے ہوئے امام خرشی کہتے ہیں:
"مطلب یہ ہے کہ: اگر نماز پڑھنے والا شخص قیام، قراءت، رکوع ، سجود اور رکوع و سجدہ سے اٹھنے اور پھر بیٹھنے کی  صلاحیت تو رکھتا ہو  لیکن جب بیٹھ گیا تو دوبارہ سے پھر قیام کی استطاعت نہیں رکھتا  تو وہ پہلی رکعت مکمل ارکان و واجبات کے ساتھ کھڑے ہو کر ادا کرے گا اور پھر بقیہ نماز بیٹھ کر مکمل کر لے گا، اسی کی جانب لخمی، تونسی اور ابن یونس کا میلان تھا۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ: ساری نماز کھڑے ہو کر اشاروں سے ادا کرے گا اور جب آخری رکعت میں پہنچے گا تو رکوع اور سجدہ کر کے  اپنی نماز مکمل کر لے گا" ختم شد
شرح مختصر خلیل از خرشی: (1/298)

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (36738 )  کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:

اگر نماز پڑھنے والا شخص قیام اور لیٹنے کی استطاعت رکھتا ہو، بیٹھنے کی اس میں سکت نہ ہو تو وہ کھڑے ہو کر نماز ادا کرے اور پھر رکوع و سجدہ کے لئے اشارہ کرے گا، پھر کھڑے ہو کر ہی تشہد بجا لائے گا اور پھر سلام پھیر دے گا۔

چنانچہ زکریا الانصاری شافعی فقیہ  "اسنی المطالب " (1/146) میں کہتے ہیں:
"جس شخص میں صرف قیام کرنے اور لیٹنے  کی استطاعت ہو تو وہ نماز میں بیٹھنے کی جگہ [قعدہ اور جلسہ  میں]بھی کھڑا رہے۔۔۔ کیونکہ  یہ [کھڑے رہنا]بیٹھنے سے زیادہ بڑا عمل ہے، وہ کھڑے رہتے ہوئے رکوع اور سجدے کے لئے اشارہ کرے گا، کھڑے ہو کر ہی تشہد بجا لائے گا اور لیٹے گا نہیں" ختم شد

جبکہ "حاشية العبادي على تحفة المحتاج" (2/23) میں ہے کہ:
"اگر اس میں صرف قیام اور لیٹنے کی صلاحیت ہو بیٹھنے سے قاصر ہو تو اس کے لئے کھڑے رہنا واجب ہے؛ کیونکہ قیام میں قعدہ  [اور جلسہ] سے بھی زیادہ عمل ہے، وہ کھڑے رہتے ہوئے رکوع اور سجدہ کے لئے حسب استطاعت اشارہ کرے گا۔۔۔ کھڑے رہتے ہوئے ہی تشہد پڑھے گا اور پھر سلام پھیرے گا، لیٹے گا نہیں" ختم شد

اور مالکی فقیہ خرشی  (1/297) کہتے ہیں:
"ایسا شخص جو تمام ارکان ادا کرنے سے قاصر ہے صرف قیام ہی کر سکتا ہے، تو وہ اپنی ساری نماز کھڑے ہو کر ہی ادا کرے اور سجدے کے لئے اشارہ کرتے ہوئے رکوع سے قدرے زیادہ جھکے گا" ختم شد

اور اگر نماز پڑھنے والا شخص کھڑے ہونے کی بھی سکت نہیں رکھتا تو وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے گا، اور رکوع و سجدہ کے لئے اشارہ کرے گا۔ تاہم اگر سجدہ زمین پر کر سکتا ہو تو اس کے لئے زمین پر سجدہ کرنا واجب ہو گا۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (570/2) میں کہتے ہیں:  
"تمام اہل علم کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص قیام کی استطاعت نہیں رکھتا  وہ بیٹھ کر نماز ادا کر سکتا ہے" ختم شد

اور مالکی فقہ کی کتاب: حاشية الدسوقي (2/475) میں ہے کہ:
"نماز میں قیام سے عاجز شخص  رکوع اور سجدہ بیٹھ کر ادا کرے گا" ختم شد

سوم:

اگر کوئی ایسا مریض پایا گیا جو کہ یا تو ساری نماز کھڑے ہو کر پڑھے یا ساری نماز بیٹھ کر ادا کرے تو پھر وہ بیٹھ کر ہی نماز ادا کرے گا، اس کی دلیل  درج ذیل ہے:

شریعت نے کچھ حالات میں نماز کے اندر قیام کو ساقط قرار دیا ہے، مثلاً: نفل نماز، اور اسی طرح ایسے شخص کے لئے قیام کرنا بھی ساقط ہو جاتا ہے جو کسی مریض امام کے پیچھے نماز ادا کر رہا ہے جو بیٹھ کر نماز پڑھا رہا ہے، تو ایسی صورت میں  وہ شخص بھی بیٹھ کر ہی نماز ادا کرے گا چاہے وہ قیام کی استطاعت رکھتا ہو۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"قیام نماز کا قدرے ہلکا رکن ہے جو کہ نوافل میں مطلقا ساقط ہو جاتا ہے، جبکہ فرائض میں مخصوص حالات میں ساقط ہوتا ہے" ختم شد
"شرح العمدة" (4/515)

تو جس وقت کھڑے رہنے اور بیٹھنے  کی کیفیت آپس میں متصادم ہوں تو پھر بیٹھنے کو ترجیح دی جائے گی، اور ویسے بھی بیٹھ کر نماز ادا کرنے سے  وہ نماز کے دیگر ارکان  سجدہ، دو سجدوں کے درمیان قعدہ، جلسہ تشہد صحیح انداز سے بجا لا سکے گا، اس لیے ایسے شخص کے لئے کھڑے  ہو کر نماز ادا کرنے کی بجائے بیٹھ کر نماز ادا کرنا زیادہ بہتر ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: اسلام سوال و جواب