اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

لڑکی نے رمضان کی قضا کا روزہ رکھا ہوا تھا، اس کی بہن نے کھانے کی دعوت دی تو روزہ افطار کر لیا۔

سوال

میں نے رمضان کی قضا کے لیے روزہ رکھا ہوا تھا، مجھے دعوتِ امام صادق دی گئی، اور میں نے اس دن روزہ توڑ لیا ، تو کیا مجھے اس دن کا روزہ رکھنے کا اجر ملے گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

علمائے کرام کے ہاں متفقہ طور پر رمضان کی قضا کا روزہ رکھنے والے کے لئے روزہ چھوڑنے کی اجازت نہیں ہے، صرف اسی عذر کی بنا پر رمضان کی قضا کا روزہ توڑا جا سکتا ہے جس کی بنا پر رمضان میں روزہ توڑا جا سکتا ہے جیسے کہ بیماری وغیرہ ۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/160) میں کہتے ہیں:
"اور جو شخص کسی واجب روزے کو شروع کر دے، مثلاً: رمضان کی قضا کا روزہ، یا نذر معین یا مطلق کا روزہ، یا کفارے کا روزہ تو اس کے لئے اب روزے کو درمیان میں چھوڑنا جائز نہیں ہے۔۔۔ الحمدللہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔" ختم شد

روزے کی حالت میں کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو یہ درمیان سے روزہ چھوڑنے کے لئے عذر نہیں بن سکتا، یہ صرف نفل روزوں کے لئے عذر ہے جیسے کہ آگے اس کی تفصیل آئے گی، واجب روزے مثلاً: رمضان کا روزہ یا رمضان کی قضا، یا نذر کا روزہ چھوڑنے کے لئے یہ عذر نہیں بن سکتا۔

اس بنا پر : آپ پر ضروری ہے کہ آپ اللہ تعالی سے روزہ توڑنے پر معافی اور توبہ طلب کریں، چہ جائیکہ واجب روزہ چھوڑنے پر اجر کی امید رکھیں! تاہم واجب روزہ درمیان میں توڑنے والے کے لئے زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ لا علمی کی بنا پر اسے صاحب عذر سمجھا جائے گا۔

دوم:

جو شخص نفل روزہ رکھے اور اسے کھانے کی دعوت دی جائے تو اسے روزہ درمیان میں چھوڑنے یا کھانے کی دعوت دینے والے کے لئے دعا کرتے ہوئے اپنا روزہ مکمل کرنے کا اختیار ہے؛ کیونکہ نفلی روزہ رکھنے والا مکمل با اختیار ہوتا ہے، اس کی دلیل مسند امام احمد: (26353) میں ہے کہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان کے پاس آئے اور پانی منگوا کر نوش فرمایا، پھر آپ نے پانی ام ہانی کو دے دیا، ام ہانی نے عمداً پانی پی کر پوچھا: اللہ کے رسول! میرا تو روزہ تھا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (نفل روزہ رکھنے والا مکمل با اختیار ہوتا ہے، وہ چاہے تو روزہ رکھ لے اور چاہے تو افطار کر دے) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح الجامع : (3854) میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح امام مسلم: (1154) نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ : (نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک بار گھر آئے اور پوچھا: کھانے کی کوئی چیز ہے؟ تو ہم نے کہا: نہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: تو پھر آج میرا روزہ ہے۔ کسی اور دن ایک بار پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے پاس آئے تو ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ہمیں حیس نامی حلوے کا تحفہ دیا گیا ہے[کیا آپ کو دیں]؟ تو آپ نے فرمایا: میرے پاس لاؤ، میں نے [ویسے تو ]صبح روزہ رکھا تھا، تو آپ نے حیس کو تناول فرمایا لیا)

صحیح مسلم: (1431) میں ہی سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو دعوت قبول کرے، اگر تو وہ روزے دار ہے تو دعا کر دے اور اگر روزہ نہیں ہے تو پھر کھانا کھا لے)

مازری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں حدیث کے عربی الفاظ:   فإن كان صائما فَلْيُصَلِّ  کا مطلب یہ ہے کھانے کی دعوت دینے والوں کو مغفرت اور برکت کی دعائیں دے" ختم شد
"شرح مسلم" (2/ 154)

بدعتی لوگوں کی مجلس میں بیٹھنا ، اور ان کی دعوت قبول کرنے کے حوالے سے آپ سوال نمبر: (102885) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

سوم:

آپ نے جو جعفر صادق رحمہ اللہ کی طرف منسوب بات کا ذکر کیا ہے، یہ ان سے ثابت نہیں ہے، بلکہ کسی صورت میں ان کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ انہوں نے واجب روزے کے متعلق یہ بات کی ہو۔ نیز رافضیوں کی کتابوں کا کوئی اعتبار نہیں ، نہ ہی ان کے ہاں ذکر کی جانے والی اہل بیت سے متعلق باتوں پر کوئی اعتبار کرنا چاہیے؛ کیونکہ وہ تو ہیں ہی رافضہ، سنت اور آثار سے ان کا کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں، جعفر صادق رحمہ اللہ سے جو کچھ بھی وہ بیان کرتے ہیں ان اکثر جھوٹ ہوتا ہے۔

رافضیوں کا اصول دین میں اہل سنت کے ساتھ اختلاف بہت گہرا ہے، اس کی تفصیلات آپ سوال نمبر: (113676) ، (21500) کے جواب میں ملاحظہ فرمائیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب