الحمد للہ.
رات کے حصے میں ہر واجب روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، یہ جمہور علمائے کرام کا موقف ہے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص فجر سے قبل روزے کی پختہ نیت نہ کرے تو اس کا کوئی روزہ نہیں ہے) اس حدیث کو ابو داود: (2454)، ترمذی: (730) اور نسائی: (2331) نے روایت کیا ہے، نیز سنن نسائی کے الفاظ میں یہ بھی ہے کہ: (جو شخص رات کو فجر سے قبل روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا کوئی روزہ نہیں ہے) اس حدیث کو البانیؒ نے "صحیح ابو داود " میں صحیح قرار دیا ہے۔
اس حدیث کے بعد امام ترمذیؒ کہتے ہیں: "بعض اہل علم کے ہاں اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ رمضان میں طلوع فجر سے قبل جو شخص روزہ رکھنے کی نیت نہیں کرتا ، یا رمضان کی قضا کے روزے میں ، یا نذر کے روزوں میں رات کے وقت نیت نہیں کرتا تو اس کا وہ روزہ نہیں ہو گا۔
جبکہ نفلی روزے کے بارے میں یہ ہے کہ صبح ہونے کے بعد بھی نفلی روزے کی نیت کی جا سکتی ہے۔ یہ موقف امام شافعی، احمد، اور اسحاق کا ہے۔" ختم شد
اسی طرح ابن قدامہ رحمہ اللہ "المغنی" (3/109) میں کہتے ہیں:
"اگر روزہ فرضی تھا، جیسے کہ رمضان کے روزے، چاہے رمضان کے دوران ہوں یا قضا کی صورت میں ہوں، اسی طرح نذر اور کفارے کے روزے؛ تو ان میں ہمارے امام احمد، امام مالک، اور شافعی کے نزدیک رات کے وقت نیت کرنا شرط ہے ۔۔۔ اس کے بعد سابقہ حدیث کو بطور دلیل ذکر کیا۔" ختم شد
جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے جمہور علمائے کرام کی اس مسئلے میں مخالفت کی ہے، چنانچہ بعض واجب روزوں میں بھی دن میں نیت کرنے کی اجازت دی ہے، تاہم رمضان کے روزوں کی قضا کی صورت میں جمہور کی موافقت کرتے ہوئے کہا ہے کہ رات کے حصے میں نیت کرنا ضروری ہے، بلکہ بعض حنفی علمائے کرام نے اس پر اجماع بھی نقل کیا ہے۔
جیسے کہ علامہ کاسانی حنفی رحمہ اللہ "بدائع الصنائع" (2/585) میں کہتے ہیں:
"تمام قسم کے روزوں میں افضل یہ ہے کہ: اگر ممکن ہو سکے تو طلوع فجر کے وقت نیت کر لے یا پھر رات کے کسی حصے میں نیت کر لے۔۔۔۔ اور اگر طلوع فجر کے بعد نیت کرتا ہے تو اگر یہ روزہ قرض تھا تو بالاجماع جائز نہیں ہوگا۔" ختم شد
قرض روزے کا مطلب "بدائع الصنائع" (2/585) میں ذکر کیا ہے کہ: اس سے مراد رمضان کی قضا، کفارہ، اور مطلق نذر کے روزے ہیں۔ ختم شد
مزید کے لیے آپ "رد المحتادر" از ابن عابدین (2/380) کا مطالعہ کریں۔
اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (192428) کا جواب ملاحظہ کریں۔
اس بنا پر:
آپ کی سہیلی کے رمضان کے روزوں کی قضا دیتے ہوئے دن کے وقت نیت کرنا اکثر ائمہ کرام کے ہاں صحیح نہیں ہے۔
اس لیے ان پر لازمی ہے کہ وہ ان ایام کے روزے دوبارہ رکھے، تاہم اس پر کفارہ لازم نہیں ہے؛ جیسے کہ ہم پہلے سوال نمبر: (26865) کے جواب میں اس کی تفصیلات ذکر کر آئے ہیں۔
دوبارہ روزے رکھنے کا حکم صرف ان ایام کے روزوں کے بارے میں ہے جو آخری سال کے رہتے ہیں؛ کیونکہ اس سال کے روزوں کی قضا دینے کا وقت ابھی باقی ہے۔
جبکہ سابقہ سالوں کے بارے میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ جیسے بعض علمائے کرام نے یہ موقف اپنایا ہے کہ جو شخص جہالت کی بنا پر کوئی عبادت غلط طریقے سے کرتا رہا ہے تو اس پر اعادہ لازم نہیں ہے۔ ہم نے ان کی گفتگو سوال نمبر: (150069) کے جواب میں ذکر کی ہے۔
چنانچہ اگر آپ کی سہیلی یہ موقف اپنا لے تو ہمیں امید ہے کہ اس پر کوئی حرج نہیں ہو گا۔
واللہ اعلم