الحمد للہ.
اول:
نماز عشا کو وقت پر ادا کرنا لازمی ہے، چاہے شفق تاخیر سے غروب ہو، جیسے کہ اس کی تفصیلات پہلے سوال نمبر: (135415) میں گزر چکی ہے۔
دوم:
جس شخص پر نماز عشا کے لئے انتظار کرنا مشکل ہو؛ کیونکہ وہ عشا کے بعد نیند پوری نہیں کر سکتا، یا اس نے کام پر جانا ہے یا پڑھائی شروع ہو جائے گی، تو اس کے لئے مغرب اور عشا جمع تقدیم کے ساتھ اکٹھے ادا کرنا جائز ہے، یہ صحیح مسلم: (705) کی روایت پر عمل ہو گا، جیسے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر اور عصر ، مغرب اور عشا کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کر کے پڑھا۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوا ل کیا گیا کہ : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا: تا کہ امت کو دشواری میں نہ ڈالیں۔)
تاہم جس کے لئے عشا کی نماز کا انتظار مشقت کا باعث نہ ہو تو اس کے لئے نمازیں جمع کرنا جائز نہیں ہے۔
اسلامی فقہ کونسل نے بھی یہی موقف اپنایا ہے، اور یہ صراحت سے لکھا ہے کہ دو نمازیں جمع کرنا عام عادت اور روٹین نہ ہو، بلکہ یہ صرف ان لوگوں کے لئے جائز ہے جن کا کوئی عذر ہے۔
اسلامی فقہ کونسل کی قرار داد میں ہے کہ:
"اگر نماز کے اوقات کی علامات عیاں تو ہوتی ہیں لیکن عشا کے وقت کی علامت ؛شفق بہت زیادہ تاخیر سے غائب ہوتی ہے تو ایسی صورت میں "کونسل" کا موقف یہ ہے کہ: عشا کی نماز شرعی مقررہ وقت میں ہی ادا کی جائے، تاہم شرعی وقت مقررہ پر نماز عشا کی ادائیگی کے لئے انتظار جس کے واسطے مشقت کا باعث بنے، مثلاً: طلبہ، ملازمت پیشہ افراد اور لیبر کے ڈیوٹی والے دن، تو ایسے میں یہ لوگ جمع کر سکتے ہیں، ان کا یہ عمل ان نصوص کے مطابق ہو گا جن میں امت سے دشواری ختم کرنے کا ذکر ہے، انہی نصوص میں وہ روایت بھی ہے جو صحیح مسلم وغیرہ میں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ظہر اور عصر ، مغرب اور عشا کو مدینہ میں کسی خوف اور بارش کے بغیر جمع کر کے پڑھا۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سوا ل کیا گیا کہ : آپ نے ایسا کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا: تا کہ امت کو دشواری میں نہ ڈالیں۔)
شرط یہ ہے کہ اس دوران دو نمازیں جمع کرنا اس خطے میں سب لوگوں کے ہاں نماز کا بنیادی طریقہ نہ بنے؛ کیونکہ ایسا کرنے سے رخصت والا عمل عزیمت میں بدل جائے گا۔
جبکہ مشقت اور دشواری کا ضابطہ ؛ عرف سے تعلق رکھتا ہے۔ نیز دشواری اور مشقت مختلف لوگوں، جگہوں، اور حالات کے پیش نظر الگ الگ ہو سکتی ہے۔" ختم شد
ماخوذ از: رابطہ عالم اسلامی کے صدر دفتر میں منعقد ہونے والے انیسویں اجلاس کی دوسری قرارداد ، منعقدہ بمقام مکہ مکرمہ 22 تا 27 شوال 1428 ہجری بمطابق 3 تا 8 نومبر 2007 ء ۔
سوم:
اگر مغرب اور عشا کی نماز رمضان میں جمع تقدیم کر کے پڑھی جائے تو اس پھر اس وقت تراویح پڑھنا جائز ہو گا؛ کیونکہ دو نمازوں کو جمع کرنے سے ان دونوں نمازوں کا وقت ایک ہو گیا۔
شرح "منتهى الإرادات" (1/ 238) میں ہے کہ :
"وتر ادا کرنے کا وقت نماز عشا اور طلوع فجر کے درمیان ہے، چاہے عشا کی نماز جمع تقدیم کر کے مغرب کے وقت میں ادا کی گئی ہو؛ اس کی دلیل حدیث معاذ ہے: آپ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (میرے رب نے مجھے ایک نماز اضافی دی ہے ، اور وہ وتر ہے، اس کا وقت عشا سے لیکر طلوع فجر تک ہے۔) احمد" ختم شد
شیخ عبد الرحمن البراک حفظہ اللہ سے ایسے لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جو نماز تراویح اور عشا کا وقت شروع ہونے سے پہلے ہی اد اکر لیتے ہیں؛ کیونکہ عشا کا وقت بہت تاخیر سے شروع ہوتا ہے، تو انہوں نے جواب دیا: "ان کے لئے نماز عشا اور عشا کا وقت شروع ہونے سے پہلے نماز تراویح پڑھنا جائز نہیں ہے۔
لیکن چونکہ ان کے ہاں عشا کا وقت بہت تاخیر سے شروع ہوتا ہے، اس لیے ان کے لئے مغرب اور عشا کی نمازوں کو جمع تقدیم کرنا جائز ہے، اس کے بعد وہ نماز تراویح پڑھ سکتے ہیں۔" ختم شد
ماخوذ از جواب نمبر: (220828)
خلاصہ:
جن لوگوں کا عذر ہے ان کی دشواری ختم کرنے کے لئے نمازیں جمع کرنا جائز ہے، لیکن جس کے لئے دشواری نہ ہو تو اس کے لئے نمازیں جمع کرنا جائز نہیں۔
چہارم:
نماز فجر کے لئے ترکی کا نظام الاوقات استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، تاہم محتاط عمل یہ ہو گا کہ روزے کے لئے سحری کا وقت تب ختم ہو جائے جب سورج 15 ڈگری افق کے نیچے ہو، جبکہ نماز کو سورج کے 13 ڈگری افق کے نیچے ہونے تک مؤخر کیا جائے، یا اس کے بعد تک بھی ممکن ہے، جیسے کہ دیگر نظام الاوقات میں موجود ہے۔ یہ صرف اس لیے کہ نماز فجر کا وقت ہونے کا یقین ہو جائے۔
واللہ اعلم