ہفتہ 1 جمادی اولی 1446 - 2 نومبر 2024
اردو

اگر کوئی ڈپریشن اور وسوسوں کی دوا ئی رات کے وقت کھاتا ہو جس کی وجہ سے دن میں بھوک اور پیاس لگے تو کیا وہ روزہ خوری کر سکتا ہے؟

293615

تاریخ اشاعت : 23-04-2021

مشاہدات : 2474

سوال

میں ڈپریشن اور وسوسوں کا علاج کافی عرصے سے کروانے کے بعد مختلف طبی ماہرین کے مشورے پر (Olanzapine) اور (Lithium) نامی ادویات لے رہا ہوں، اب مسئلہ یہ آ رہا ہے کہ معالج کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق جس وقت سونے سے قبل میں (Olanzapine) کھاتا ہوں تو مجھے بہت زیادہ بھوک لگتی ہے اور منہ بھی خشک ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے میں روزہ توڑنے پر مجبور ہو جاتا ہوں، میں نے ایک نفسیاتی ماہر علاج کے آرٹیکل میں پڑھا ہے کہ (Lithium) نامی دوا کے ساتھ اگر پانی کم استعمال کیا جائے تو اس سے مسائل جنم لیتے ہیں حتی کہ صرف ایک خوراک بھی مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ رمضان سے پہلے جب رات کو دوا کھاتا تھا تو خوب کھا پی لیتا تھا لیکن اب رمضان میں روزہ توڑتا ہوں تو اپنے آپ کو کوستا ہوں ، اب مجھے یہ نہیں معلوم کہ میرا اس انداز سے روزہ توڑنا میری طرف سے خلاف ورزی تو نہیں؟ مجھے یہ بھی وسوسے آتے ہیں کہ اللہ تعالی مجھے اس عمل پر سزا دے گا۔ ان دنوں میں میری تعلیم بھی جاری ہے اور میرے امتحانات چل رہے ہیں۔ تو مجھے خدشہ ہے کہ اللہ تعالی مجھے اس پر سزا دے گا۔

آپ مجھے جلد از جلد رہنمائی دیں، میں انتظار نہیں کر سکتا ، میرا معالج اس قسم کے فتاوی کی کوئی پروا بھی نہیں کرتا، نہ ہی میں ان سے اس بارے میں مزید بات کر سکتا ہوں۔ میری آپ سے گزارش ہے کہ اس بارے میں شرعی حکم واضح کریں۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

رمضان کے روزے ہر قدرت رکھنے والے مسلمان مکلف پر لازمی ہیں۔

تاہم جب کوئی مسلمان کسی نقصان دہ بیماری کی وجہ سے روزہ خوری کرے یا روزہ رکھنے کی وجہ سے اس کی بیماری بڑھ جاتی ہو ، یا بیماری کے علاج کے لیے دن میں دوائی کھانی یا شربت پینا ہوتو اس کے لیے روزہ خوری جائز ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
 وَمَنْ كَانَ مَرِيضاً أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ 
 ترجمہ: اور جو بھی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ دیگر ایام میں روزوں کی گنتی پوری کرے، اللہ تعالی تم پر آسانی کرنا چاہتا ہے وہ تم پر تنگی نہیں کرنا چاہتا۔[البقرۃ:185]

اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (یقیناً اللہ تعالی کو اپنی دی ہوئی رخصتوں پر عمل اتنا ہی پسند ہے جتنا اسے نافرمانی کرنا ناپسند ہے۔) مسند احمد: (5839) اس حدیث کو البانیؒ نے "إرواء الغليل"(564) میں صحیح قرار دیا ہے۔

روزہ خوری کے لیے عذر بننے والے مرض کے متعلق ہم پہلے سوال نمبر: (12488) میں ذکر کر آئے ہیں۔

اگر آپ ماہ رمضان میں دوا ترک کر سکتے ہیں کہ آپ کو کوئی مشقت بھی نہ اٹھانی پڑے اور کوئی واضح نقصان بھی نہ ہو تو پھر آپ روزے رکھنے کے لیے ماہ رمضان میں دوا مت استعمال کریں۔

اور اگر دوا ترک کرنے سے آپ کی تکلیف بڑھ سکتی ہے، یا واضح نقصان ہو سکتا ہے تو پھر رات کے ابتدائی حصے میں ہی آپ دوا کھا لیں تا کہ صبح سویرے تک دوا کا منفی اثر ختم ہو جائے۔

اور اگر دوا صرف سونے سے قبل ہی کھانی ہے، جس کی وجہ سے دن میں خوب بھوک اور پیاس لگتی ہے، منہ خشک ہو جاتا ہے تو پھر رات کو روزہ رکھنے کی نیت کریں، اور اپنے دن کا آغاز روزے سے کریں، پھر جب آپ کو شدید تکلیف ہو یا جان کو خطرہ لاحق ہو تو آپ اس قدر کھا پی سکتے ہیں جس سے تکلیف ختم ہو جائے، پھر بقیہ دن کھانے پینے سے رکے رہیں اور بعد میں اس دن کی قضا دیں۔

لیکن اگر آپ کو شدید تکلیف یا جان کا خطرہ لاحق نہ ہو تو آپ کے لیے روزہ توڑنا حرام ہو گا۔

تو آپ کا حکم اس وقت وہی ہے جو نان بائی، لوہار، اور مستری وغیرہ کا ہے کہ انہیں بھی اپنے پیشے کی وجہ سے سخت بھوک اور پیاس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

چنانچہ "كشاف القناع" (2/ 310) میں ہے کہ:
"ابو بکر آجریؒ کہتے ہیں: جس شخص کا پیشہ مشقت طلب ہے : اگر اسے روزے کی وجہ سے زندگی تلف ہونے کا خدشہ ہو تو روزہ توڑ دے اور قضا دے، یہ اس وقت ہے جب اس پیشے کو ترک کرنے کی وجہ سے اسے مسائل کا سامنا ہو، اگر پیشہ ترک کرنے سے اسے کوئی نقصان نہیں ہو گا تو روزہ توڑنے پر گناہ گار قرار پائے گا، اس لیے وہ پیشہ ترک کرے گا۔ اور اگر پیشہ چھوڑنے سے نقصان یقینی ہو گا تو اس صورت میں روزہ ترک کرنے پر اسے گناہ نہیں ہو گا؛ کیونکہ یہاں اس کا عذر ہے۔" ختم شد

اسی طرح "الموسوعة الفقهية" (28 / 57) میں ہے کہ:
"حنفی فقہائے کرام کہتے ہیں کہ: اپنی روزی روٹی کے لیے نان بائی اور فصل کی کٹائی جیسا پیشہ رکھنے والا شخص اگر یقینی طور پر جانتا ہو کہ اگر اس نے اپنی مزدوری کی تو روزہ خوری کے لیے عذر بننے والا نقصان ضرور ہو گا تو تب بھی اس کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے تا آں کہ اسے یہ نقصان ہونا شروع ہو جائے۔" ختم شد

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی: (10/ 233) میں ہے کہ:
" محض مزدور ہونے کی بنا پر مکلف کے لیے رمضان میں دن کے وقت روزہ خوری جائز نہیں ہے۔ تاہم اگر مزدوری کے دوران بہت زیادہ مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے وہ روزہ توڑنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ اتنی مقدار میں ہی کھائے پیے کہ جس سے مشقت ختم ہو جائے اور پھر غروب آفتاب تک کھانے پینے سے رکا رہے، اور لوگوں کے ساتھ ہی مغرب کے وقت کھائے پیے، اور بعد میں اس دن کی قضا بھی دے۔" ختم شد

دائمی فتوی کمیٹی سے یہ بھی پوچھا گیا کہ:
"ایک شخص تندور پہ کام کرتا ہے اور اسے بہت زیادہ پیاس اور تھکاوٹ ہو جاتی ہے، تو کیا اس کے لیے روزہ خوری جائز ہے؟"

فتوی کمیٹی نے جواب دیا:
"اس کے لیے روزہ خوری کی اجازت نہیں ہے، اس پر لازمی ہے کہ روزہ رکھے۔ رمضان میں دن کے وقت تندور پر کام کرنا روزہ افطار کرنے کے لیے عذر نہیں ہے، اس پر لازم ہے کہ اپنی استطاعت کے مطابق تندور پہ کام کرے اور روزہ مکمل کرے۔" ختم شد

دائمی کمیٹی برائے فتاوی و علمی تحقیقات: (10 / 238)

خلاصہ یہ ہے کہ آپ درج ذیل امور میں سے مناسب طریقہ اختیار کریں:

  1. رمضان میں دوا کھانا بالکل بند کر دیں۔
  2. رات کے آغاز میں ہی دوا کھا کر اگلے دن روزہ رکھ لیں۔
  3. سونے سے قبل دوا کھائیں اور سارا دن بھوک اور پیاس برداشت کر لیں۔ بشرطیکہ آپ کی جان کو خطرہ نہ ہو۔
  4. اگر آپ کو بھوک یا پیاس کی وجہ سے شدید خطرہ لاحق ہو تو پھر اتنی مقدار میں کھا پی لیں جس سے ہلاکت کا خدشہ ٹل جائے اور پھر آپ اس روزے کی قضا دے دیں۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کو شفا دے اور عافیت سے نوازے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب