جمعہ 19 جمادی ثانیہ 1446 - 20 دسمبر 2024
اردو

مرد و عورت كے ليے كونسے رنگ كا لباس حرام اور مستحب اور مكروہ ہے

سوال

وہ كونسے رنگ ہيں جو مرد اور عورتوں كے مستحب اور مكروہ اور حرام ہيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اس سوال كا جواب دينے سے قبل ايك چيز بيان كرنا ضرورى ہے وہ يہ كہ مرد و عورت كے لباس ميں رنگ كے متعلق اصل تو اباحت ہى ہے، الا يہ كہ نص شرعى ميں مرد يا عورت كے ليے كسى رنگ كى ممانعت آ جائے، چنانچہ شرعى نصوص ميں كچھ معين رنگ پہننے اور كچھ معين رنگ كى ممانعت آئى ہے، ہم ذيل ميں اسے پيش كرتے ہيں:

سياہ رنگ:

ام خالد بنت خالد بيان كرتى ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس كچھ كپڑے لائے گئے جن ميں سياہ رنگ كا چھوٹا سا ريشمى كپڑا تھا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

تمہارا خيال ميں ہم يہ كسے پہنائينگے ؟

تو لوگ خاموش رہے، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: ميرے پاس ام خالد كو لاؤ، تو مجھے اٹھا كر لايا گيا، چنانچہ آپ نے وہ قميص مجھے اپنے ہاتھ سے پہنائى اور فرمايا: اسے پہن كر پوسيدہ كرو، اور اس ريشمى كپڑے ميں سبز اور سياہ نشان اور دھارياں بھى تھيں، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: اے ام خالد يہ اچھا ہے، يہ اچھا ہے، اور سناہ حبشى زبان كا لفظ ہے جس كا معنى بہتر اور اچھا كے ہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 3575 ).

اور " ابلى و اخلقى " كا معنى يہ ہے: يہ مخاطب كے ليے لمبى عمر كى دعا ہے كہ اس كى عمر لمبى ہو اور وہ اس كپڑے كو پہن كر اسے بوسيدہ كرے.

اور جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں نے فتح مكہ كے روز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے سر پر سياہ پگڑى ديكھى "

صحيح مسلم.

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ليے سياہ رنگ كى چادر بنائى گئى، اور جب آپ كو اس ميں پسينہ آيا تو آپ كو اس ميں سے اون كى بو آنے لگى تو آپ نے اسے اتار پھينكا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اچھى خوشبو پسند تھى "

اسے ابو داود نے روايت كيا ہے، امام حاكم اسے مستدر حاكم ( 4 / 188 ) روايت كرتے ہوئے كہتے ہيں، يہ صحيح اور شيخين كى شروط پر ہے، اور امام ذہبى نے اس كى موافقت كى ہے، اور شيخ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الصحيحۃ ( 5 / 168 ) حديث نمبر ( 2136 ) ميں كہتے ہيں: يہ حديث اسى طرح ہے جيسے ان دونوں نے كہا ہے.

ابو داود رحمہ اللہ نے سنن ابو داود ميں اس حديث كو باب فى السواد ( سياہ رنگ كا باب ) كے تحت ذكر كيا ہے، اور ابو داود كى شرح عون المعبود كے مؤلف كہتے ہيں:

" يہ حديث سياہ رنگ كا لباس پہننے كى مشروعيت پر دلالت كرتى ہے، اور يہ كہ اس ميں كوئى كراہت نہيں " اھـ

ديكھيں: عون المعبود ( 11 / 126 ).

اس ليے مرد و عورت كے ليى سياہ رنگ مباح ہے، اور اس رنگ كے متعلق باطل قسم كى بدعات پيدا ہو چكى ہيں: يہ اعقاد ركھا جاتا ہے كہ يہ رنگ مصيبت كے وقت پہنا جاتا ہے.

اور پھر اس ميں عيسائيوں كے ساتھ مشابہت ہے، شيخ محمد بن صالح العثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" مصائب كے وقت سياہ لباس پہننا باطل شعار و علامات ميں شمار ہوتا ہے، جس كى كوئى اصل نہيں ملتى، انسان كو مصيبت كے وقت وہ كام كرنا چاہيے جو شريعت مطہرہ ميں آيا ہے، لہذا وہ مصيبت كے وقت انا للہ و انا اليہ راجعون اور اللہم اجرنى في مصيبتى و اخلف لي الخير منھا پڑے جس كا ترجمہ يہ ہے:

" يقينا ہم اللہ كے ليے ہيں، اور ہم سب نے اس كى طرف ہى پلٹ كر جانا ہے، اے اللہ مجھے ميرى مصيبت ميں اجر دے اور مجھے اس كا نعم البدل عطا فرما.

كيونكہ جب كوئى مسلمان شخص يہ دعا ايمان اور اجروثواب كى نيت سے پڑھتا ہے تو اللہ تعالى اسے اجروثواب سے نوازتا ہے اور اس كا نعم البدل عطا فرما ديتا ہے اھـ

اور شيخ رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:

" ہمارى رائے ميں تعزيت كے ليے لباس مخصوص اور معين كرنا بدعات ميں شامل ہوتا ہے، اور اس ليے بھى كہ ہو سكتا ہے اللہ كى تقدير پر انسان كى ناراضگى كى خبر اور اظہار ہو... ا ھـ

ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 3 / 313 ).

سفيد رنگ:

ابو ذر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا تو آپ سفيد كپڑا ليكر سوئے ہوئے تھے، اور پھر بعد ميں آيا تو آپ بيدار ہو چكے تھے .... "

اس حديث كو امام بخارى نے صحيح بخارى ميں باب الثياب البيض كے تحت بيان كيا ہے.

اور امام بخارى نے ہى سعد رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ: ميں نے جنگ احد والے دن نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے بائيں اور دائيں دو شخص ديكھے جن كا لباس سفيد تھا، نہ تو ميں نے انہيں اس سے پہلے كبھى ديكھا اور نہ ہى بعد ميں "

اور يہ دونوں جبريل اور ميكائيل تھے، جيسا كہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح البارى ميں ذكر كيا ہے.

ديكھيں: فتح البارى ( 10 / 295 ).

اور سفيد رنگ كے كپڑوں زندہ كے ليے پہننا اور فوت شدہ كو سفيد رنگ كے كپڑوں ميں دفن كرنا مستحب ہے، جيسا كہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث ميں آيا ہے:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اپنے كپڑوں ميں سے سفيد لباس پہنا كرو، كيونكہ يہ تمہارے سب كپڑوں سے بہتر ہے، اور اس ميں اپنے فوت شدگان كو دفنايا كرو "

اسے ابو داود اور ترمذى نے روايت كيا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے احكام الجنائز صفحہ ( 82 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اسى طرح مرد كے ليے دو سفيد چادروں ميں احرام باندھنا مستحب ہے.

سبز رنگ:

ابو رمثہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" ميں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو ديكھا كہ آپ كے اوپر دو سبز چادريں تھيں "

اسے ترمذى نے روايت كيا اور اسے حسن غريب كہا ہے، اور امام نسائى نے سنن نسائى حديث نمبر ( 5224 ) ميں روايت كيا ہے.

سرخ رنگ:

خالص سرخ رنگ مردوں كے ليے پہننے كى ممانعت آئى ہے ليكن عورتوں كے ليے نہيں، اس كى دليل درج ذيل حديث ہے:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مفدم سے منع فرمايا "

اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3591 ) ميں روايت كيا ہے.

اور المفدم: وہ رنگ جس ميں زرد رنگ ہو جسےمعصفر كہا جاتا ہے، اور سنن نسائى كے حاشيہ سندى ميں ہے: المفدم: زيادہ سرخ رنگ كو كہتے ہيں.

اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما جب مرد كو معصفر يعنى زرد رنگ پہنے ہوئے ديكھتے تو اسے كھينچتے اور فرماتے: اس رنگ كو عورتوں كے ليے رہنے دو "

اسے امام طبرى نے روايت كيا ہے.

اور عبد اللہ بن عمرو رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" ايك شخص نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس سے گزرا جس نے دو سرخ رنگ كے كپڑے پہنے ہوئے تھے اس نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو سلام كيا تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے جواب نہ ديا "

اسے ابو داود اور ترمذى اور بزار نے روايت كيا ہے، اور ترمذى نے اسےحسن كہا ہے، اور اماو بزار كہتے ہيں: اسے ہم اس سند كے ساتھ نہيں جانتے، اس ميں ابو يحيى الفتات ہے اور يہ راوى مختلف فيہ ہے.

مردوں كو سرخ رنگ كا لباس پہننے سے منع كرنے كے كئى ايك اسباب بيان كيے جاتے ہيں جن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:

ـ اس ليے كہ يہ كفار كا لباس ہے.

ـ اس ليے كہ يہ عورتوں كا لباس ہے، اور عورتوں سے مشابہت اختيار كرنے سے منع كيا گيا ہے.

ـ اس ليے كہ يہ شہرت كا لباس ہے، يا پھر مروت كو ختم كر ديتا ہے، تو جہاں ہو اس سے منع كيا جائے.

اور يہ ممانعت اس كپڑے كے ساتھ مخصوص ہے جو مكمل طور پر بالكل سرخ ہو، ليكن اگر اس ميں سرخ رنگ كے علاوہ دوسرى رنگ بھى ہو سياہ يا سفيد وغيرہ تو پھر ممنوع نہيں، اس بنا پر سرخ جبہ والى احاديث كو محمول كيا جاتا ہے كہ اس ميں دوسرا رنگ بھى تھا.

براء بن عازب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم درميانہ قد كے تھے، ميں نےانہيں سرخ جبہ ميں ديكھا تو وہ اتنے حسين اور خوبصورت لگ رہے ميں نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم سے خوبصورت كبھى كوئى نہيں ديكھا "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5400 ).

كيونكہ يمنى جبوں ميں غالبا سرخ رنگ يا دوسرے رنگوں كى دھارياں ہوتى ہيں، بالكل اور خالص سرخ نہيں.

ابن قيم رحمہ اللہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے لباس كے متعلق كہتے ہيں:

ہميں حديث بيان كى ابو وليد نے انہوں نے شعبہ سے حديث بيان كى اور وہ ابو اسحاق سے بيان كرتے ہيں وہ كہتے ہيں ميں نے براء رضى اللہ تعالى عنہ سے سنا وہ كہہ رہے تھے:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم درميانہ قد كے تھے، ميں نےانہيں سرخ جوڑے ميں ديكھا تو وہ اتنے حسين اور خوبصورت لگ رہے ميں نے آپ صلى اللہ عليہ وسلم سے خوبصورت كبھى كوئى نہيں ديكھا "

اور حلۃ اوپر اوڑھنے اور نيچے باندھنى والى دو چادروں كو كہتے ہيں... جس كا يہ گمان ہے كہ وہ خالص سرخ رنگ كى تھيں اس ميں كوئى دوسرا رنگ نہيں تھا اس كو غلطى لگى ہے، بلكہ سرخ جوڑا وہ دو يمنى چادريں تھيں جو سرخ اور سياہ رنگ كے دھاگے سے تيار كى گئى تھيں جس طرح سارى يمنى چادريں تيار ہوتى ہے...

وگرنہ خالص اور مكمل سرخ رنگ كو ممنوع ہے، بلكہ اس كى شديد ممانعت آئى ہے، صحيح بخارى ميں ہے كہ:

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ريشمى چادروں سے منع فرمايا "

اور سرخ رنگ كے كپڑے وغيرہ پہننے كے جواز ميں كچھ اختلاف ہے، ليكن اس كى كراہت تو بہت زيادہ ہے ... "

ديكھيں: زاد المعاد ( 1 / 139 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد