اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا کبیرہ گناہ کا مرتکب بھی بغیر حساب کے جنت میں جا سکے گا؟

سوال

اگر کوئی شخص کبیرہ اور صغیرہ گناہوں کا ارتکاب کر بیٹھے تو کیا اب بھی اس کے لئے ممکن ہے کہ وہ جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو جائے؟؛ کیونکہ اس نے ابھی تک کسی سے دم کرنے کا مطالبہ نہیں کیا، نہ ہی اس نے اپنے آپ کو آگ سے داغا ہے، اور وہ صرف اللہ تعالی پر توکل کرتا ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

صغیرہ اور کبیرہ گناہوں کا ارتکاب کرنے والا بھی جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو سکتا ہے بشرطیکہ وہ توبہ کر لے، کیونکہ اللہ تعالی توبہ کرنے کی وجہ سے اس کی ساری برائیوں اور گناہوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے چاہے اس نے قتل، شرک، اور زنا جیسے گھناؤنے جرائم بھی کیے ہوئے ہوں، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهاً آخَرَ وَلا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَاماً * يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَاناً * إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلاً صَالِحاً فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُوراً رَحِيماً 

ترجمہ: اور اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں  اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کے رہے گا۔ [68] قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔ ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان  لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ [الفرقان:68 – 70]

اس لیے کسی بھی قسم کے گناہ گار کے لئے توبہ لازمی ہے، اور اللہ تعالی سے توبہ کی قبولیت اور جنت میں بنا حساب داخلہ مانگتا رہے۔

جبکہ اگر کوئی شخص کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کے بعد توبہ کے بغیر ہی مر جائے تو وہ اللہ تعالی کی مشیئت  کے تحت ہو گا، اللہ تعالی چاہے تو اسے عذاب سے دوچار فرما دے گا اور چاہے تو معاف فرما دے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

 إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ

ترجمہ: بیشک اللہ تعالی اس بات کو نہیں معاف کرے گا کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے، اس کے علاوہ جس کے جو چاہے معاف کر دے گا۔ [النساء :48]

اس آیت کی تفسیر میں ابن جریر طبری رحمہ اللہ کہتے ہیں:
“اس آیت کریمہ نے بالکل واضح کر دیا ہے کہ کبیرہ گناہ کا کوئی بھی مرتکب اللہ تعالی کی مشیئت کے تحت ہے، اگر اللہ تعالی چاہے تو اسے معاف فرما دے گا اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے دے، بشرطیکہ اس کا کبیرہ گناہ اللہ کے ساتھ شرک نہ ہو” ختم شد
“تفسیر طبری” (8 / 450)

اور ہم سوال نمبر: (174528) میں ذکر کر آئے ہیں کہ:

شرعی دلائل کا ظاہری مفہوم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جو لوگ جنت میں بغیر حساب اور عذاب کے داخل ہوں گے وہ نیکیوں میں انتہائی بلند درجات کے حامل ہوں گے، ان لوگوں میں درمیانے درجے کے یا نچلے درجے کے اپنی جانوں پر ظلم کرنے والے لوگ شامل نہیں ہوں گے۔

اس کی دلیل مسند احمد میں ابو درداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (اللہ تعالی کا فرمان ہے:

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللهِ

ترجمہ:  پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب  کا وارث بنایا جنہیں ہم نے (اس وراثت کے لئے) اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ پھر ان میں سے کوئی تو اپنے آپ پر ظلم کرنے والا ہے۔ کوئی میانہ رو ہے اور کوئی اللہ کے اذن سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والا ہے۔ [فاطر:32]    تو نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہی وہ لوگ ہیں جو جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوں گے، جو لوگ درمیانے درجے کے ہیں ان کا حساب  آسان لیا جائے گا، اور جن لوگوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا تو ان لوگوں کا محشر کی ساری مدت میں حساب لیا جاتا رہے گا، پھر یہی لوگ ہوں گے جن کو اللہ تعالی اپنی رحمت کے صدقے جہنم سے نکال کر جنت میں داخل فرما دے گا پھر یہی لوگ کہیں گے:

وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَذْهَبَ عَنَّا الْحَزَنَ إِنَّ رَبَّنَا لَغَفُورٌ شَكُورٌ (34) الَّذِي أَحَلَّنَا دَارَ الْمُقَامَةِ مِنْ فَضْلِهِ لَا يَمَسُّنَا فِيهَا نَصَبٌ وَلَا يَمَسُّنَا فِيهَا لُغُوبٌ

ترجمہ: اور وہ کہیں گے اس اللہ کا شکر ہے جس نے ہم سے غم دور کر دیا  ۔ یقیناً ہمارا پروردگار بخشنے والا، قدردان ہے۔[34] جس نے اپنے فضل سے ہمیں ابدی قیام گاہ میں اتارا جہاں ہمیں مشقت اٹھانی پڑتی ہے اور نہ تھکان لاحق ہوتی ہے۔ [فاطر: 34، 35])

نیز علی بن ابو طلحہ سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اس آیت کی تفسیر میں کہا:
“اس سے امت محمد صلی اللہ علیہ و سلم  مراد ہے، اللہ تعالی نے انہیں تمام نازل شدہ کتابوں کا وارث بنایا ہے؛ چنانچہ ان میں سے ظلم کرنے والے کو آخر کار معاف کر دیا جائے گا، اور درمیانے درجے کے لوگوں کا حساب آسان لیا جائے گا ، جبکہ نیکیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں کو بغیر حساب کے جنت میں داخل کیا جائے گا۔” اس روایت کو ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر: (20/465) میں نقل کیا ہے۔

اسی طرح ابو وائل رحمہ اللہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ :
“روزِ قیامت اس امت کے تین حصے ہوں گے، ایک تہائی جنت میں بغیر حساب کے داخل ہو گا، اور ایک تہائی کا آسان حساب لیا جائے گا اور ایک تہائی لوگ بڑے بڑے پاپ لے کر آئیں گے تو اللہ تعالی علم ہونے کے باوجود ان کے متعلق پوچھے گا: (یہ کون ہیں؟) اس پر فرشتے کہیں گے: یہ لوگ بڑے بڑے پاپ کر کے آئے ہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ انہوں نے آپ کے ساتھ شرک نہیں کیا۔ اس پر اللہ تعالی فرمائے گا: (ان سب کو بھی میری رحمت کی وسعتوں میں شامل کر دو) پھر عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا۔۔۔

ترجمہ:  پھر ہم نے ان لوگوں کو کتاب  کا وارث بنایا جنہیں ہم نے (اس وراثت کے لئے) اپنے بندوں میں سے چن لیا۔ ۔۔[فاطر:32]    ”
اس روایت کو ابن جریر طبری نے اپنی تفسیر: (20/465) میں نقل کیا ہے۔

کبیرہ گناہ کا مرتکب شخص بھی اگر اللہ تعالی کے پاس توبہ کے بغیر حاضر ہوا تو اس کا شمار اپنے آپ پر ظلم کرنے والوں میں ہو گا، تو اس کا حساب لیا جائے گا اور اس کی نیکیوں و بدیوں میں موازنہ کیا جائے گا، اگر اس کی برائیاں زیادہ ہو گئیں تو وہ اہل جہنم میں شمار ہو گا الا کہ اللہ تعالی اسے معاف فرما دے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا آسان حساب لیا جائے، تو اللہ تعالی اس سے اس کے گناہوں کا اقرار کروائے گا اور پھر اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا۔

شیخ حافظ حکمی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں:
“سوال: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان: (تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، اگر چاہے تو وہ معاف کر دے اور  چاہے تو سزا دے دے) متفق علیہ۔ اس حدیث میں اور جو بات پہلے گزر چکی ہے کہ جس کی برائیاں  نیکیوں سے زیادہ ہوئیں تو وہ جہنم میں جائے گا، ان دونوں میں کیسے تطبیق دیں گے؟
جواب: در حقیقت ان دونوں میں کوئی تصادم ہی نہیں ہے؛ کیونکہ اللہ تعالی جسے معاف کرنا چاہے تو اللہ تعالی اس کا حساب آسان لے گا، تو دوران حساب کتاب اسی شخص کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے  فرمایا کہ: (تم میں سے ایک شخص اللہ کے قریب ہوگا، اللہ تعالی اپنا بازو اس پر رکھ کر فرمائے گا: تو نے فلاں فلاں برے کام کیے تھے؟ وہ عرض کرے گا جی ہاں اللہ تعالی، پھر فرمائے گا۔ تو نے یہ برے کام کیے تھے ؟ وہ عرض کرے گا۔ جی ہاں۔ اللہ تعالی اس سے قرار کرانے کے بعد فرمائے گا میں نے دینا میں تیرے گناہوں پر پردہ کیے رکھا اور آج میں تیرے وہ گناہ معاف کرتا ہوں) ” متفق علیہ

اور جو لوگ اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم میں جائیں گے تو وہ ان لوگوں میں سے ہوں گے جن کا کڑا حساب ہو گا، ان کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جس سے کڑا حساب لیا گیا تو اسے عذاب بھی دیا جائے گا) متفق علیہ”
ماخوذ از: “أعلام السنة المنشورة” (171)

اور شیخ ابن باز رحمہ اللہ  جنت میں بغیر حساب کے داخل ہونے والوں کے بارے میں کہتے ہیں:
“رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بارے میں بتلایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے دین پر قائم دائم ہیں، ان کی تعداد ستر ہزار ہے اور ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار ہوں گے۔

تو اس امت کے اگلے درجوں والے مومن جنت میں بھی اولین داخل ہونے والوں میں شامل ہوں گے ، وہ چودھویں رات کے چاند کی طرح جنت میں جائیں گے، انہوں نے اپنے نفسوں پر اللہ کے لئے بہت محنت کی ہو گی، یہ لوگ جہاں بھی رہے اللہ کے دین پر ڈٹے رہے، فرائض کی ادائیگی اور حرام کاموں سے اجتناب کیا، اور نیکیوں کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔

ان کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ کسی کو کہہ کر اپنے آپ پر دم نہیں کرواتے، نہ ہی آگ سے اپنے آپ کو داغ دیتے ہیں اور نہ ہی بد فالی لیتے ہیں” ختم شد
“مجموع فتاوى ابن باز” (28/ 60).

اس حدیث میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ وہ اپنے رب پر اتنا توکل کرتے ہیں کہ وہ اپنی ضروریات سے بھی اللہ تعالی پر توکل کی وجہ سے مستغنی ہو جاتے ہیں، یہ ان کے کمال توکل کی علامت ہے، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں ہو سکتی کہ جو شخص توکل کے کامل درجے تک پہنچ جائے تو وہ کسی بھی کبیرہ گناہ پر تسلسل کے ساتھ عمل پیرا نہیں ہوتا۔

خلاصہ یہ ہوا کہ:
جو شخص جنت میں بغیر حساب کے جانا چاہتا ہے تو وہ کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے، اور اگر کسی کبیرہ گناہ میں ملوث ہو بھی جائے تو فوری سچی توبہ کر لے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب