الحمد للہ.
اول:
مریض کو کون سی دوا چاہیے اور کتنی چاہیے اس چیز کا تعین ڈاکٹر کرتا ہے، فارمیسی پر کھڑے ہوئے فرد کا یہ کام نہیں ہوتا۔
اس بنا پر دوا خانے پر موجود فرد پر کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ میڈیکل انشورنس رکھنے والے فرد کو ادویات فراہم کرے، چاہے اس کا غالب گمان یہی ہو کہ ادویات اس کی ضرورت سے زیادہ ہیں، اگر وہ ضرورت سے زیادہ ہیں تو گناہ مریض اور زیادہ مقدار میں دوا تجویز کرنے والے معالج پر ہو گا، بشرطیکہ کہ ڈاکٹر اتنی دوا لکھ دے جو اسے ضرورت ہی نہیں ہے؛ کیونکہ اس میں جھوٹ بھی ہے اور انشورنس کا مال باطل طریقے سے کھانا بھی شامل ہے۔
تاہم دوا خانے والے پر یہ لازمی ہے کہ مریض کو صرف وہی ادویات دے جو لکھی گئی ہیں، کچھ اور نہیں دے سکتا؛ مثلاً: مریض دوائی کی جگہ پر صفائی یا خوبصورتی کے لیے استعمال ہونے والی اشیا دینے کا مطالبہ کرے؛ کیونکہ دوا خانے کو ڈاکٹر کے لکھے ہوئے نسخے کے مطابق ادویات دینے کی ذمہ داری بطور امانت سونپی گئی ہے، نیز اس میں انشورنس کمپنی سے جھوٹ بھی بولا جائے گا کہ ایسی چیز انہیں لکھ کر دینی پڑے گی جو مریض نے لی ہی نہیں، بلکہ مریض نے تو کچھ اور ہی لیا تھا۔
دوم:
مریض جس وقت وہ دوا لے جو ڈاکٹر نے اس کے لیے لکھی تھی، اور مریض کو ان ادویات کی ضرورت بھی تھی تو مریض ان ادویات کا مالک بن جاتا ہے، لہذا اب اس کے لیے جائز ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو یہ ادویات دے سکتا ہے، لیکن یہاں پر شرط یہ ہے کہ اتنی زیادہ مقدار میں کسی کو نہ دے کہ خود اسے اپنی ضرورت سے زیادہ دوائی دوا خانے سے لینی پڑے۔
تاہم جو ادویات حیلہ بازی یا جھوٹ بول کر حاصل کی ہے تو وہ حرام مال ہے ، ان ادویات کا وہ مالک نہیں ہے، یہ ادویات غصب شدہ اور چوری کردہ مال کے حکم میں ہیں، مریض پر لازمی ہے کہ انشورنس کمپنی کو واپس کرے یا اس کا معاوضہ انہیں دے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (جو کچھ ہاتھ نے لیا وہ اس وقت تک اس کے ذمے رہتا ہے جب تک وہ اسے واپس نہیں کر دیتا) اس حدیث کو (20098) ، ابو داود (3561) ، ترمذی: (1266) اور ابن ماجہ: (2400) نے روایت کیا ہے، نیز مسند احمد کی تحقیق میں شعیب ارناؤط نے اسے حسن لغیرہ قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم