بدھ 10 جمادی ثانیہ 1446 - 11 دسمبر 2024
اردو

کیا حاملہ عورت حج کرسکتی ہے

سوال

کیا حاملہ عورت حج اورعمرہ کےمناسک ادا کرسکتی ہے ؟
اورکیا اس پرمدت حمل اثرانداز ہوتی ہے ( مثلا حمل کے آٹھویں ماہ سے موازنہ کرتے ہوئے وہ چوتھے ماہ میں ہو ) کیونکہ ازدحام اوررش کی وجہ سے عورت کاحمل ہی ساقط ہوجائے یا پھروہ بیمارہوجائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 - حمل کی حالت میں عورت کا حج پرجانے میں کوئي مانع نہيں ، اورحاملہ عورت پاک صاف اورطاہر ہے اس پرنماز کی ادائيگي اورروزہ رکھنا لازمی ہے اوراسے دی گئي طلاق سنت طریقہ پردی گئي طلاق شمار ہوگي ۔

2 - بلکہ سنت میں تویہ بھی ثابت ہے کہ اسماء بنت عمیس رضي اللہ تعالی عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کرنے کے لیے گئيں تووہ حمل کے آخری ایام میں تھیں بلکہ انہوں نے تومیقات پرہی بچہ جنم دیا تھا ۔

عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ - ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کی بیوی - اسماء بنت عمیس رضي اللہ تعالی عنہا نے شجرہ نامی جگہ پرمحمد بن ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ کوجنم دیا ، تورسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ سے فرمایا کہ اسے کہوکہ وہ غسل کرکے احرام باندھ لے ۔صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1209 ) ۔

حدیث میں استعمال شدہ لفظ ( نفست ) کامعنی بچہ جنم دیا ہے ۔

اورشجرۃ کا معنی ذی الحلیفہ جواہل مدینہ کا میقات ہے ۔

امام نووی رحمہ اللہ تعالی اس حديث کے فوائد بیان کرتے ہوئے کہتے ہيں :

اوراس میں یہ بھی بیان ہے کہ : حائضہ اورنفاس والی عورت کا احرام بھی صحیح ہے اوراحرام کے لیے ان دونوں کےلیے غسل کرنا مستحب ہے ، اوراس پرسب اس پرمتفق ہیں کہ وہ غسل کریں گیں ۔

لیکن ہمارا اورامام مالک اورابوحنفیہ اورجمہورعلماء کرام کا مسلک ہے کہ یہ مستحب ہے ، اورحسن اوراہل ظاہرکہتے ہیں کہ یہ واجب ہے ۔

حائضہ اورنفاس والی عورت کے مکمل اعمال حج صحیح ہیں لیکن وہ طواف نہيں کریں گی اورنہ ہی وہ طواف کی رکعات ادا کریں گی کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( تم بھی وہی اعمال کروجوسب حاجی کرتے ہیں صرف طواف نہ کرو ) دیکھیں : صحیح مسلم ( 8 / 133 ) ۔

اوراگرعورت نے فريضہ حج ادا نہ کیا ہوتوپھراس کے لیے حج کے ترک کرنے کے لیے حمل کوئي عذر شمار نہيں ہوگا ، کیونکہ اس کے لیے حج کرنا ممکن ہے اوروہ رش اورازدھام اوردھکم پیل والی جگہ سے اجتناب کرتے ہوئے حج ادا کرسکتی ہے ، اوراگروہ خود کنکریاں نہیں مارسکتی توکسی کواپنی طرف سے کنکریاں مارنے کے لیے وکیل مقرر کرسکتی ہے ، اوراسی طرح اگروہ پیدل چل کرطواف اورسعی نہيں کرسکتی توویل چئر ( ریڑھی ) پرکرسکتی ہے اوراسی طرح ۔

اوربہت سے لوگ ایسے بھی ہيں جوحج کرتے ہیں اوروہ راستوں اوررہائش اورحج کے اعمال کرنے کے اعتبار سےبہت ہی زيادہ آرام وراحت میں ہوتے ہیں ۔

3 - جی ہاں اگرکوئي عورت حاملہ ہواورکسی تجربہ کاراورسپیشلسٹ ڈاکٹر نے یہ بتایا کہ اس عورت کی کمزوری یا بیماری یا کسی اورسبب کی وجہ سے اس کے حج پرجانے کی بنا پراسے اپنی جان یا پھر بچے کی جان کوخطرہ ہے ، تواس عورت کواس برس حج پرجانے سے منع کردیا جائے گا اوراسے حج سے روکنے کی دلیل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مندرجہ ذيل فرمان ہے :

( نہ توخود نقصان اٹھاؤ اورنہ ہی کسی دوسرے کونقصان دو ) سنن ابن ماجۃ حدیث نمبر ( 2340 ) یہ حدیث حسن ہے آپ اس کی تخریج ابن رجب کی کتاب جامع العلوم والحکم ( 1 / 302 ) دیکھیں ۔

4 - اوربعض ڈاکٹر اورطبیب حمل کے ابتدائي اورآخری ایام میں فرق کرتے ہیں کہ حمل کے ابتدائي ایام میں بچے اورماں کوخطرہ ہوتا ہے ، اورآخری ایام میں توبغیر کسی خوف دلانے والے کے ہی خوف ہوتا ہے ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب