اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

میزان اعمال میں اخلاق حسنہ کیسے وزنی ترین ہو سکتا ہے؛ حالانکہ توحید کا وزن زیادہ ہے؟

سوال

آپ نے سوال نمبر: (174947) کے جواب میں ذکر کیا ہے کہ صحیح حدیث کے مطابق اعمال کے ترازو میں وزنی ترین چیز لا الہ الا اللہ کہنا ہے۔ لیکن اس بات کو اس حدیث کے ساتھ کیسے تطبیق دی جا سکتی ہے کہ: (میزان میں حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں)

جواب کا متن

الحمد للہ.

الحمدللہ:

عقیدہ توحید روزِ قیامت انسان کے ترازو میں وزنی ترین چیز ہو گی، جیسے کہ پرچی والی حدیث میں ہے۔

پرچی والی حدیث یہ ہے: " عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی قیامت کے دن میری امت کے ایک شخص کو چھانٹ کر نکالے گا اور سارے لوگوں کے سامنے لائے گا اور اس کے سامنے [گناہوں کے] ننانوے رجسٹر کھول دے گا، ہر رجسٹر حد نگاہ تک لمبا ہوگا ، پھر اللہ عزوجل فرمائے گا: کیا تو اس میں سے کسی جرم کا انکار کرتا ہے؟ کیا تم پر میرے محافظ کاتبوں نے ظلم کیا ہے؟ وہ کہے گا: میرے پروردگار! نہیں ۔پھر اللہ فرمائے گا: کیا تیرے پاس صفائی پیش کرنے کے لئے کوئی عذر ہے؟ تو وہ کہے گا: میرے پروردگار! نہیں۔ تو اللہ تعالی فرمائے گا(کوئی بات نہیں) تیر ی ایک نیکی ہمارے پاس ہے۔ آج کے دن تجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوگا، پھر ایک پرچی نکالی جائے گی جس پر أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ لکھا ہوگا ۔ اللہ فرمائے گا: جاؤ اپنے اعمال کے وزن کا مشاہدہ کرو، وہ کہے گا: اے میرے رب! ان رجسٹروں کے سامنے یہ پرچی کیا حیثیت رکھتی ہے!؟ اللہ تعالی فرمائے گا: تمہارے ساتھ زیادتی نہ ہوگی۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :پھر وہ تمام رجسٹر ایک پلڑے میں رکھ دیئے جائیں گے اور وہ پرچی دوسرے پلڑے میں ، تو وہ سارے رجسٹر ہلکے ہو کر اٹھ جائیں گے، اور پرچی بھاری ہو جائے گی۔ اللہ کے نام کے مقابلے میں کوئی چیز اس سے بھاری ثابت نہیں ہو سکتی "
اس حدیث کو ترمذی: (2639)، ابن ماجہ: (4300) اور مسند احمد : (11/571) نے روایت کیا ہے، اور اسے البانی ؒ نے صحیح قرار دیتے ہوئے کہا ہے: "امام حاکم کہتے ہیں کہ: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح سند والی ہے" ان کی اس بات پر امام ذہبی نے موافقت کی ہے۔
البانی ؒ کہتے ہیں: میری بھی وہی رائے جو امام حاکم اور ذہبی نے کہی ہے۔ ختم شد
"السلسة الصحيحة" (1 / 262)

جبکہ ابو درداء رضی اللہ عنہ کی حدیث جس میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (میزان میں حسن اخلاق سے بڑھ کر کوئی چیز وزنی نہیں) اس حدیث کو ابو داود: (4799) اور ترمذی: (2002) نے روایت کیا ہے، اس کے بارے میں امام ترمذی کہتے ہیں: "یہ حدیث حسن صحیح ہے" نیز اس حدیث کو البانی ؒ نے سلسلہ صحیحہ: (2/535) میں صحیح قرار دیا ہے؛ یہاں اس حدیث میں یہ مراد نہیں ہے کہ حسن اخلاق کلمہ توحید سے بھی افضل ہے، یا یہ کہ اچھا اخلاق اللہ تعالی اور رسول اللہ پر ایمان لانے سے بھی افضل ہے؛ کیونکہ اللہ اور رسول اللہ پر ایمان کے بغیر حسن اخلاق کا اللہ تعالی کے ہاں کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔

اس لیے یہاں مراد یہ ہے کہ: مومن اور موحد بندے کا حسن اخلاق [میزان میں سب سے بھاری ہو گا]۔

تو اس طرح حسن اخلاق کی دیگر اقدار پر یا نفلی عبادات پر فضیلت ہو گی، جیسے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے وہ کہتی ہیں کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بیشک مومن اپنے حسن اخلاق کی بدولت روزے رکھنے اور قیام کرنے والے کا درجہ پا لیتا ہے) اس حدیث کو ابو داود: (4798) نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے سلسلہ صحیحہ : (2/421) میں صحیح قرار دیا ہے۔

امام صنعانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
" آخرت میں حسن اخلاق کا مالک شخص روزے رکھنے والے اور نمازیں پڑھنے والے کا درجہ پا لے گا۔ اس کے بارے میں طیبی کہتے ہیں: یہاں نفل روزے اور نمازیں مراد ہیں۔" ختم شد
"التنوير شرح الجامع الصغير" (9 / 476)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! فلاں خاتون رات کو قیام کرتی ہے اور دن میں روزے رکھتی ہے، عبادات کے لئے بہت کچھ کرتی ہے ، اور صدقہ بھی دیتی ہے، لیکن اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو اذیت پہنچاتی ہے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اس میں کوئی خیر نہیں ہے، وہ اہل جہنم میں سے ہے۔
پھر صحابہ نے کہا: ایک اور عورت وہ صرف فرض نماز ہی پڑھتی ہے، اور پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرتی ہے ، لیکن وہ کسی کو تکلیف نہیں پہنچاتی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: وہ اہل جنت میں سے ہے۔) اس حدیث کو امام بخاری نے: ادب المفرد : (119) اور امام احمد نے مسند احمد: (15/421) و دیگر محدثین نے روایت کیا ہے، جبکہ البانیؒ نے سے سلسلہ صحیحہ: (1/369) میں صحیح قرار دیا ہے، نیز مسند احمد کے محققین نے اسے حسن کہا ہے۔

تو [معلوم ہوا کہ] نفل عبادات کا وزن حسن اخلاق کے ساتھ مل کر بڑھ جاتا ہے، لیکن جب اخلاق بگڑ جائے تو نفل عبادات کا فائدہ نہیں ہوتا۔ جبکہ نفل عبادات کم بھی ہوں تب بھی حسن اخلاق انسان کو فائدہ دیتا ہے، جیسے کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:

الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ، قَوْلٌ مَعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللَّهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ ، يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ

 ترجمہ: جو لوگ اپنا مال اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں اور نہ ایذا دیتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وہ اداس ہونگے۔ [262] نرم بات کہنا اور معاف کر دینا اس صدقہ سے بہتر ہے جس کے بعد ایذا رسانی ہو اور اللہ تعالی بے نیاز اور بردبار ہے [263] اے ایمان والو اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالی پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زور دار مینہ برسے اور وہ اس کو بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالی کافروں کی قوم کو (سیدھی) راہ نہیں دکھاتا۔ [البقرة :262 - 264]

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب