اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

زانی، چور اور شراب نوش کی توبہ اور نیکیاں حد لگے بغیر قبول ہو سکتی ہیں؟

سوال

ایک شخص اللہ تعالی کی حدوں سے تجاوز کرتے ہوئے زنا کر گزر تا ہے، دین کو برا بھلا کہتا ہے، اسی طرح کے دیگر گناہ کرتا ہے، لیکن اس پر کوئی حد لاگو نہیں کی جاتی تو کیا اس کی نیکیاں قبول ہو جائیں گی؟ کیا عبادات ، نیک کاموں کی قبولیت، دعائیں اور نماز وغیرہ کی قبولیت حد نافذ کرنے سے تعلق رکھتی ہیں یا حد نافذ ہوئے بغیر بھی اس کی عبادت ٹھیک ہو گی؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر کوئی شخص مہلک گناہوں جیسے کہ زنا، چوری، شراب نوشی، یا کوئی شخص نعوذباللہ مرتد ہی ہو جاتا ہے تو اس پر سب سے پہلے یہ واجب ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی طرف رجوع کرے، ان گناہوں کو ترک کر دے، اپنے کیے پر ندامت کا اظہار کرے اور آئندہ ایسے گناہ مت کرے، نیز اگر لوگوں کے حقوق بھی غصب کیے ہیں تو انہیں ان کا حق واپس کرے۔

یہ مسلمہ بات ہے کہ جو شخص توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالی بھی اس کی توبہ قبول فرماتا ہے، چاہے اس کا گناہ کتنا ہی گھناؤنا ہو؛ کیونکہ اللہ تعالی کی رحمت کے سامنے سب گناہ ہیچ ہیں۔

فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا (68) يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا (69) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَحِيمًا
ترجمہ: اور اللہ کے ساتھ کسی اور الٰہ کو نہیں پکارتے نہ ہی اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق قتل کرتے ہیں اور نہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص ایسے کام کرے گا ان کی سزا پا کے رہے گا۔ (68) قیامت کے دن اس کا عذاب دگنا کر دیا جائے گا اور ذلیل ہو کر اس میں ہمیشہ کے لئے پڑا رہے گا۔ (69) ہاں جو شخص توبہ کر لے اور ایمان لے آئے اور نیک عمل کرے تو ایسے لوگوں کی برائیوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا، رحم کرنے والا ہے۔ [الفرقان: 68 - 70]

تو ان آیات میں اللہ تعالی نے شرک، قتل اور زنا تک کا ذکر کیا ہے، پھر اس کے بعد فرمایا: جو شخص بھی توبہ کرے اور ایمان لا کر عمل صالح کرے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے، اور اس کی تمام تر برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیتا ہے۔

اسی طرح اللہ تعالی کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
 وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِمَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدَى 
ترجمہ: یقیناً میں اس شخص کو ضرور بخشنے والا ہوں جو توبہ کرے، ایمان لائے ، اور عمل صالح کرنے لگے اور راہ ہدایت پر گامزن رہے۔[طہ: 82]

دوم:

اگر کوئی شخص مذکورہ یا دیگر گناہوں میں ملوث ہو جائے اور توبہ کر لے تو اس پر یہ لازمی نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ پر حد لاگو کرنے کا مطالبہ کرے، بلکہ زیادہ بہتر یہ ہے کہ اپنے آپ پر پردہ رکھے اور اللہ تعالی سے دل ہی دل میں توبہ کر لے، کثرت سے نیکیاں کرے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (اللہ تعالی کے منع کردہ ان برے گناہوں سے بچو، اگر کوئی شخص ان میں ملوث ہو بھی جائے تو اللہ کی طرف سے ڈالا گیا پردہ قائم رکھے) اس حدیث کو بیہقی نے روایت کیا ہے اور البانیؒ نے اسے "سلسلہ صحیحہ" : (663)میں صحیح قرار دیا ہے۔

اسی طرح صحیح بخاری: (4894) میں ہے سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ : "ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (کیا تم میری اس بات پر بیعت کرتے ہو کہ اللہ تعالی کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے، زنا اور چوری نہیں کرو گے۔۔۔) آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سورت النساء کی آیت تلاوت فرمائی، اور کہا: (جو تم میں سے اپنا وعدہ وفا کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمے ہے، اور اگر کسی نے ان گناہوں میں سے کسی کا ارتکاب کر لیا اور پھر اس کو سزا دی گئی تو یہ سزا اس کے لیے کفارہ ہو گی۔ اور اگر کسی نے ان گناہوں کا ارتکاب کر لیا اور اللہ تعالی نے اس کے عیب پر پردہ ڈالے رکھا تو اس کا معاملہ اللہ کے ذمے ہے، اگر چاہے تو اسے عذاب سے دوچار کر دے اور چاہے تو بخش دے)"

اسی طرح صحیح مسلم: (2590) میں ہے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اللہ تعالی کسی بندے پر دنیا میں پردہ ڈالے رکھے تو لازمی بات ہے کہ روزِ قیامت بھی اس پر پردہ ڈالے رکھے گا)

ایسے ہی مسند احمد: (21891) میں نعیم بن ھزال سے مروی ہے کہ: "ھزال نے ماعز بن مالک کو مزدوری پر رکھا، ھزال کی ایک فاطمہ نامی لونڈی تھی، جسے طلاق ہو گئی تھی، وہ اپنی بکریاں چرا رہی تھی اور ماعز نے اس کے ساتھ بد فعلی کر لی اور آ کر ھزال کو بتلا دیا، ھزال نے ماعز کو چکما دے کر کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس چلو، ماجرا نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی بتلا دو ، شاید تمہارے بارے میں قرآن کی وحی نازل ہو جائے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ماعز کے بارے میں حکم دیا کہ انہیں رجم کر دیا جائے، لیکن جب ماعز کو پتھر لگے تو بھاگ کھڑے ہوئے، سامنے سے ایک آدمی نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی ، یا پنڈلی کی ہڈی ماعز کو ماری تو لڑکھڑا کر گر پڑے، اس پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ھزال! یہ کیا کیا، اگر تم ماعز کو اپنے کپڑے میں چھپا لیتے تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر تھا۔)" اس حدیث کے بارے میں مسند احمد کے محققین کہتے ہیں کہ یہ صحیح لغیرہ ہے۔

ایسے ہی صحیح مسلم: (1695) میں اس کی وضاحت ہے کہ جب ماعز نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور زنا کا اقرار کر لیا اور کہا کہ: مجھے پاک کریں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں مخاطب ہو کر فرمایا تھا: (تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ واپس چلے جاؤ، استغفار کرو اور توبہ کرو)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس میں دلیل ہے کہ کبیرہ گناہ بھی توبہ سے دھل جاتے ہیں، اور اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے۔" ختم شد

اسی طرح حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ماعز کے واقعے سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ماعز نے آ کر زنا کا اقرار کیا ہے، لہذا جو بھی ماعز جیسے معاملے میں ملوث ہو جائے تو وہ اللہ سے توبہ کر لے اور اپنے جرم کی پردہ پوشی کرے، کسی کو اپنی اس حرکت کے بارے میں مت بتلائے۔۔۔ امام شافعی ؒ نے یہی بات ٹھوس انداز میں کہی ہے کہ: مجھے یہ پسند ہے کہ جو شخص دنیا میں گناہ کر بیٹھے اور اللہ تعالی اس پر پردہ فرما دے ، تو اسے چاہیے کہ وہ پردہ پوشی رہنے دے اور اللہ تعالی سے توبہ کر لے۔" ختم شد
" فتح الباری" ( 12 / 124)

اسی طرح "مطالب أولي النهى" (6/ 168) میں ہے کہ:
"اگر کوئی شخص ایسا کام کرتا ہے جس سے حد واجب ہوتی ہے: تو اپنے گناہ پر پردہ ڈالے رکھنا مستحب ہے، حکمران یا قاضی کے سامنے جا کر اقرار کرنا واجب یا سنت نہیں ہے؛ کیونکہ حدیث نبوی ہے کہ: (یقیناً اللہ تعالی پردہ پوشی کرنے والا ہے اور اپنے بندوں میں سے پردہ پوشی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔)" ختم شد

اسی طرح دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کہتے ہیں:
"قابل حد جرم کی اطلاع جب کسی شرعی حکمران تک پہنچ جائے اور مکمل دلائل سے جرم بھی ثابت ہو تو حد قائم کرنا واجب ہو جاتا ہے، اب توبہ سے جرم معاف نہیں ہو گا، اس پر سب کا اجماع ہے۔ جیسے کہ غامدیہ عورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس توبہ کرنے کے بعد آئی اور کہا کہ مجھ پر حد نافذ کریں، تو اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کے بارے میں فرمایا تھا: (اس عورت نے ایسی عظیم توبہ کی ہے کہ اگر اہل مدینہ ایسی توبہ کریں تو سب کی بخشش ہو جائے) لیکن اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس پر حد لاگو کی، نیز حد لاگو کرنے کا اختیار حکمران کے علاوہ کسی کو نہیں ہے۔

لیکن اگر حکمران یا قاضی تک بات نہیں پہنچتی، تو مسلمان کو چاہیے کہ اللہ تعالی نے جرم پر پردہ ڈالا ہوا ہے اسے باقی رکھے، اور اللہ تعالی سے سچی توبہ کر لے، بہت امید ہے کہ اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرما لے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة"( 22 / 15)

سوم:

مندرجہ بالا تفصیلات سے واضح ہو چکا ہے کہ انسان اپنے گناہ پر پردہ ڈالے رکھے تو یہ اپنے آپ پر حد نافذ کروانے کی کوشش سے زیادہ بہتر ہے، اور اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حد توبہ کے لیے شرط بھی نہیں ہے، نیز حد کے بغیر توبہ صحیح ہو گی، مزید بر آں دیگر نیک اعمال حد قائم کیے بغیر بالاولی قبول کیے جاتے ہیں؛ کیونکہ اعمال کی قبولیت اور حد کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ:

مثال کے طور پر اگر کوئی شخص زنا کر بیٹھتا ہے تو اس کے لیے مستحب ہے کہ اپنے گناہ پر اللہ تعالی کا ڈالا ہوا پردہ باقی رکھے، اور اللہ تعالی سے اپنے فعل کی توبہ مانگ لے، کسی کو بھی اپنے جرم کے بارے میں نہ بتلائے۔ نیز اگر کسی کو اطلاع مل بھی جائے تو اس کے لیے پردہ پوشی سے کام لینا مستحب ہے، نیز گناہگار شخص کو پردہ پوشی کی ترغیب دلائے، اگر وہ توبہ کر لیتا ہے تو اللہ تعالی اس کی توبہ قبول فرمائے گا، اگر اس پر حد نافذ نہیں کی جاتی تو اس کا اس گناہ سے توبہ اور دیگر نیکیوں پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب