الحمد للہ.
بچوں کی پیدائش میاں اور بیوی کا مشترکہ حق ہے، اس لیے دونوں میں سے کوئی بھی یہ حق نہیں رکھتا کہ دوسرے کی رضا مندی کے بغیر بچے پیدا کرنے سے رک جائے، اسی لیے آزاد عورت [جو لونڈی نہ ہو]کے خاوند کے لیے ممانعت ہے کہ بیوی کی اجازت کے بغیر عزل [جماع کے دوران منی اخراج باہر]کرے؛ کیونکہ میاں اور بیوی دونوں بچوں کی پیدائش کا یکساں حق رکھتے ہیں۔
مسند احمد: (212) اور ابن ماجہ: (1928) میں سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد عورت کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے منع فرمایا ہے۔) اس حدیث کو احمد شاکر نے مسند احمد کی تحقیق میں اسے صحیح قرار دیا ہے، جبکہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف ابن ماجہ میں ضعیف قرار دیا ہے۔
ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اپنی [ایسی بیوی جو کہ لونڈی نہ ہو ]آزاد ہو اس کے ساتھ عزل اس کی اجازت سے ہی کر سکتا ہے، قاضی کہتے ہیں کہ: امام احمد کی گفتگو سے ظاہر تو یہی ہوتا ہے کہ بیوی سے عزل کی اجازت لینا واجب ہے۔۔۔ کیونکہ عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد عورت کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے منع فرمایا ہے۔) اس حدیث کو امام احمد نے مسند احمد میں اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
ویسے بھی بچے کی پیدائش پر بیوی کا حق بھی برابر کا ہے، مزید برآں یہ بھی ہے کہ عزل کرنے کی صورت میں اسے کم لذت ملے گی ، اس لیے کہ بیوی کو پوری لذت منی کے اندر اخراج سے ملتی ہے؛ لہذا بغیر اجازت عزل جائز نہیں ہے۔ " ختم شد
المغنی (7/ 298)
شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم یہ کہتے ہیں کہ: [لونڈی کی جگہ ]آزاد بیوی سے عزل اس کی اجازت کے بغیر نہیں کیا جا سکتا، یعنی آزاد بیوی کے ساتھ جماع کرتے ہوئے عزل کرنا ہے تو اس کی اجازت ضروری ہے؛ کیونکہ بچے کے حصول پر اس کا بھی حق ہے۔
پھر یہ بھی ہے کہ بیوی کی اجازت کے بغیر عزل کرنے سے بیوی کی لطف اندوزی میں کمی واقع ہو گی؛ کیونکہ بیوی کو لطف آتا ہی انزال کے بعد ہے۔
اس بنا پر: اگر بیوی سے اجازت نہیں لی جاتی تو اس سے بیوی مکمل طور پر لطف اندوز نہیں ہو پاتی، نیز اولاد بھی نہیں ہوگی، اس لیے ہم نے عزل کے لیے یہ شرط بیان کی ہے کہ بیوی کی اجازت کے ساتھ ہی ہو۔ " ختم شد
" فتاوى إسلامية " (3/ 190)
جبکہ اسقاط حمل کا خوف دل میں رکھنے کے بارے میں یہ ہے کہ: اگر آپ کو کسی معتبر لیڈی ڈاکٹر ماہر امراض زچہ اور بچہ نے یہ نہیں بتلایا کہ آپ میں کوئی مرض ہے جس کی وجہ سے اسقاط حمل ہوتا ہے تو پھر بلا وجہ خوف دل میں رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ یہاں تو اللہ تعالی سے خیر کی امید رکھنی چاہیے اور اللہ سے خیر مانگنی چاہیے۔
پہلے ہم سوال نمبر: (151643) کے جواب میں تفصیل سے بتلا چکے ہیں کہ مانع حمل ادویات اور ذرائع استعمال کرنے کے بارے میں بیوی پر لازم نہیں ہے کہ وہ خاوند کی اطاعت کرے؛ کیونکہ اس سے بیوی کی حق تلفی ہوتی ہے، چنانچہ بیوی کے لیے یہ جائز ہے کہ وہ کسی بھی ایسے ذریعے کو اپنا لے جس سے حمل ٹھہرنے کی امید قائم ہو جائے، کیونکہ افزائش نسل نکاح کے مقاصد میں بھی شامل ہے، نیز بیوی مانع حمل ذرائع استعمال کرنے سے واضح لفظوں میں انکار بھی کر سکتی ہے، اور اگر خاوند اپنے موقف پر ڈٹ جائے اور مانع حمل ذرائع استعمال کروانے پر زور دے تو بیوی کے لیے طلاق کا مطالبہ کرنا جائز ہو جاتا ہے؛ کیونکہ یہاں بیوی کی حق تلفی ہو رہی ہے۔
اس لیے مناسب یہ ہے کہ آپ اپنے خاوند کو اس معاملے پر نصیحت کریں، اپنے خاوند سے پیار کے ساتھ بات کریں، اور اللہ تعالی سے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی آپ کے خاوند کی شرح صدر فرمائے، اور اس کو ہدایت بھی دے۔
ہم بھی اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی آپ کے حالات سنوار دے۔
واللہ اعلم