الحمد للہ.
الحمدللہ:اول:
دعا کے متعلق اصل حکم تو یہی ہے کہ دعا کرنا جائز ہے جب تک کہ دعا میں گناہ پر مشتمل دعا شامل نہ ہو۔
نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے وسیلے کی دعا ان الفاظ میں کرنا کہ:
اَللَّهُمَّ آتِ مُحَمَّدًا الوَسِيلَةَ وَالفَضِيلَةَ، وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَهُ
[ترجمہ: یا اللہ! محمد -ﷺ- کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما، نیز انہیں مقام محمود پر سرفراز فرما، جس کا تو نے ان سے وعدہ کیا ہوا ہے۔] تو یہ اچھی دعا ہے، اس کا معنی بھی ٹھیک ہے، یہ دعا احادیث میں ثابت بھی ہے، اس لیے دعا کرنے کے لئے مخصوص جگہوں یا اوقات میں ان الفاظ کو دعا میں شامل کرنے پر کوئی حرج نہیں ہے، چاہے ان مخصوص جگہوں یا اوقات کے الگ سے مسنون الفاظ بھی وارد ہوئے ہوں، ہمیں اس میں کوئی حرج نظر نہیں آتا۔
تاہم مسلمان کو چاہیے کہ جن جگہوں پر دعاؤں کے لئے مخصوص الفاظ احادیث میں ثابت ہیں پہلے ان الفاظ میں دعا مانگے اور پھر اس کے بعد شرعی طور پر جائز کوئی بھی دعا مانگ سکتا ہے، اسی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے مقام محمود اور وسیلے کی دعا بھی شامل ہے۔
ایسے ہی اس چیز کا بھی خیال رکھا جائے کہ: دعا ایسی نہ ہو کہ : دعا عام ہو اذان کے بعد والے وقت سے مقید نہ ہو، اپنے آپ پر دعا کو لازمی بھی قرار نہ دیا جائے، جیسے کہ مخصوص جگہوں اور اوقات سے متعلق مسنون دعائیں ہوتی ہیں۔
دوم:
مسلمان پر لازمی ہے کہ احادیث میں مذکور دعاؤں اور اذکار کے الفاظ کی ترتیب کا خاص خیال رکھے؛ کیونکہ اسی میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اطاعت ہو گی۔
اور اللہ تعالی کا اطاعت کے متعلق فرمان ہے:
لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا
ترجمہ: یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ کی ذات بہترین نمونہ ہیں، اس شخص کے لئے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے اور کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرتا ہے۔[الأحزاب:21]
اسی طرح اگر دعا مانگنے والا شخص عربی زبان نہ جانتا ہو تو ممکن ہے کہ الفاظ آگے پیچھے کرنے سے دعا کا معنی ہی تبدیل ہو جائے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے کہ:
"دعاؤں کا باب بہت وسیع ہے، اس لیے بندہ اپنے پروردگار سے ہر قسم کی دعا مانگ سکتا ہے بشرطیکہ دعا میں کوئی گناہ نہ ہو۔
جبکہ مسنون اذکار اور دعاؤں سے متعلق یہ ہے کہ یہ بنیادی طور پر توقیفی ہوتے ہیں، یعنی ان کے الفاظ اور تعداد دونوں ہی توقیفی ہیں، اس لیے مسلمان کو چاہیے کہ ان چیزوں کا خیال رکھے، اور خصوصی اہتمام کرے، چنانچہ مسنون تعداد اور الفاظ میں کمی بیشی نہ کرے اور نہ ہی کسی قسم کی تبدیلی کرے۔"
اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عبد الله بن قعود ، عبد الرزاق عفیفی ، عبد العزیز بن عبد الله بن باز " ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (24 / 203 - 204)
واللہ اعلم