اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کیا آخری زمانے میں قرآن اٹھا لیا جائے گا

3096

تاریخ اشاعت : 14-02-2005

مشاہدات : 27454

سوال

ایک رسالہ مستقبل اسلامی جو کہ سعودی عرب سے شائع ہوتا ہے اس کے اداریہ میں لکھا گیا ہے کہ آخری زمانے کی نشانیوں میں ایک علامت یہ ہے کہ قرآن کریم چھپ جائے گا میں نے اس سے پہلے ایسا کبھی نہیں سنا اور یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ کلام صحیح ہو حالانکہ ہمیں علم ہے کہ یہاں پر بہت ہی زیادہ قرآن کریم کے حافظ موجود ہیں میں چاہتا ہوں کہ آپ میرے لۓ اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں ۔ اللہ تعالی آپ کو اس میں وقت صرف کرنے پر جزائے خیر فرمائے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

آخری زمانے میں قرآن مجید کے اٹھائے جانے پر متعدد احادیث وارد ہیں ان میں سے چند ایک یہ ہیں :

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ( قرآن پر ایک رات ایسی ائے گی کہ مصحف اور کسی کے دل میں کوئی آیت نہیں چھوڑی جائے گی مگر یہ کہ اسے اٹھا لیا جائے گا )

اسے دارمی نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے حدیث نمبر 3209

دارمی نے ( حدیث نمبر 3207) حسن لغیرہ سند کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے کہ انہوں نے فرمایا قرآن کی تلاوت کثرت سے کیا کرو قبل اس کہ اسے اٹھا لیا جائے تو ( شاگرد) کہنے لگے یہ مصحف تو اٹھا لۓ جائیں گے لیکن تو جو لوگوں کے سینے میں ہے اس کا کیا ہو گا ؟

عبداللہ بن مسعود فرمانے لگے اس پر ایک رات گزرے گی تو صبح وہ اس سے خالی ہو چکے ہوں گے اور لا الہ الا اللہ کا قول بھی انہیں بھول چکا ہو گا اور وہ جاہلیت کے قول اور ان کے اشعار میں پڑ چکے ہوں گے اور یہ وقت ہو گا جب کہ ان پر قول واقع ہو گا ۔

اور اس آیت میں قول سے وہی مراد ہے :

(جب ان کے اوپر قول (عذاب کا وعدہ ) ثابت ہو جائے گا ہم زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے باتیں کرتا ہو گا بیشک لوگ ہماری آیتوں پر یقین نہیں کرتے تھے ) النمل / 82

ابن کثیر رحمہ اللہ تعالی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ:

( یہ جانور آخری زمانے میں نکلے گا جب کہ لوگوں میں فساد بپا ہو چکا ہو گا اور لوگ اللہ تعالی کے احکام کر ترک کر چکے اور دین حق کو بدل چکے ہوں گے تو اللہ تعالی ان کے لۓ زمین سے جانور نکالے گا کہا گیا ہے کہ وہ مکہ سے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ وہ کہیں اور سے نکلے گا اور لوگوں کے ساتھ اس معاملے پر باتیں کرے گا ۔

ابن عباس رضی اللہ عنہما اور قتادہ بیان کرتے ہیں کہ – اور علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے بھی یہ بیان کیا گیا ہے – کہ ان کے ساتھ باتیں کرے گا یعنی لوگوں سے مخاطب ہو گا اور عطاء خراسانی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ – اور علی رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے – اور ابن جریر نے اسے ہی اختیار کیا ہے ان سے باتیں کرے گا اور ان سے یہ کہے گا کہ لوگ ہماری آیات پر یقین نہیں رکھتے تھے تو اس قول میں نظر ہے جو کہ کسی پر مخفی نہیں ۔

واللہ تعالی اعلم

اور ایک روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ : وہ انہیں زخمی کرے گا اور ان سے ایک روایت ہے کہ یہ سب کچھ کرے گا یعنی یہ بھی اور وہ بھی اور یہ قول اچھا ہے جو کسی کے منافی نہیں واللہ تعالی اعلم تفسیر القرآن العظیم ( 3/ 375 – 378)

اور وہ احادیث اور آثار جن میں دابہ جانور کا ذکر ہے بہت ہیں ان میں سے بعض یہ ہیں :

حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے بیان کیا گیا ہے کہ : نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم پر ایک کمرہ سے جھانکا اور ہم قیامت کا ذکر اور اس کی باتیں کر رہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک کہ تم دس نشانیاں نہ دیکھ لو مغرب سے سورج کا طلوع ہونا ، دھواں، جانور (دابہ) یاجوج ماجوج کا خروج ، عیسی ابن مریم کا ظہور ، دجال ، تین جگہوں کا دھنسنا مغرب میں اور مشرق میں اور جزیرہ عرب میں زمین کا دھنسنا ، عدن کی گہرائی سے آگ کا نکلنا جو کہ لوگوں کو ہانکے اور اکٹھا کرے گی جہاں پر وہ رات گزاریں گے وہ بھی وہیں رات گزارے گی اور جہاں وہ آرام کریں گے وہ بھی آرام کرے گی )

مسند احمد حدیث نمبر (46) یہ لفظ مسند احمد کے ہیں صحیح مسلم حدیث نمبر (2910) ابو داؤد حدیث نمبر (4311) ترمذی حدیث نمبر (2183) ترمذی نے اسے حسن صحیح کہا ہے نسائی حدیث نمبر (11380) ابن ماجہ حدیث نمبر (4055)

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(جب تین چیزوں کا ظہور ہو جائے گا تو جو پہلے ایمان نہیں لایا اس وقت اس کا ایمان لانا قابل قبول نہیں ہو گا دجال دابۃ الارض جانور مغرب سے سورج کا طلوع ہونا )

سنن ترمذي حدیث نمبر (3072) اور اسے حسن صحیح کہا ہے ۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

(چھ چیزوں کے ظہور سے پہلے پہلے اعمال کر لو سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، یا دھواں ، یا دجال ، یا جانور یا تم میں سے خاص یا عام معاملہ ) صحیح مسلم حدیث نمبر (2947) ابن ماجہ حدیث نمبر (4056) وغیرہ نے روایت کیا ہے ۔

اور ان کے علاوہ بہت سی احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ آخری زمانے میں جانور نکلے گا جن کے ذکر سے مضمون لمبا ہو جائے گا اور اللہ تعالی ہی مدد گار ہے ۔

اور آخری زمانے میں قرآن کے اٹھائے جانے کے متعلق جو احادیث وارد ہیں ان میں سے معجم الکبیر ( حدیث نمبر 8698) میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ :

یہ قرآن تمہارے درمیان سے کھینچ لیا جائے گا تو ان سے کہا گیا اے ابو عبدالرحمن یہ کیسے کھینچ لیا جائے گا حلانکہ ہم نے اسے اپنے سینوں اور مصاحف میں محفوظ کر رکھا ہے ؟ تو انہوں نے فرمایا کہ اس پر ایک رات ایسی ائے گی کہ کسی بندے کے دل اور کسی مصحف میں کچھ باقی نہیں رہے گا اور لوگ صبح اٹھیں گے تو جانوروں کی طرح ہوں گے پھر انہوں نے اللہ تعالی کا یہ فرمان پڑھا :

اور اگر ہم چاہیں تو آپ کی طرف ہم نے جو وحی کہ ہے سب سلب کر لیں پھر آپ کواس کے لۓ ہمارے مقابلے میں کوئی حمایتی میسر نہ آ سکے گا ) الاسراء / 87

حافظ ابن حجر فتح الباری (13 / 16) میں فرماتے ہیں کہ : اس کی سند تو صحیح ہے لیکن ہے موقوف اور ہیثمی نے مجمع الزوائد (7/ 329) میں کہا ہے کہ : شداد بن معقل کے علاوہ اس کے رجال صحیح کے رجال ہیں اور وہ ثقہ ہے اور اس حدیث کو علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے ۔

اور اس حدیث کا حکم مرفوع ہے کیونکہ رائے کے ساتھ نہیں کہا جا سکتا ۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے مجموع الفتاوی ( 3/ 189) فرمایا ہے کہ : آخری زمانے میں راتو رات قرآن کریم کو سینوں اور مصاحف سے اٹھا لیا جائے گا تو سینوں میں کوئی کلمہ اور مصاحف میں ایک حرف بھی باقی نہیں رہے گا ۔

اللہ تعالی نے قرآن کریم کو لوگوں کی ہدایت کے لۓ نازل فرمایا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لۓ ہمیشہ کے لۓ معجزہ ہے جو کہ باقی رہے گا پہلے اور آخری لوگ اسے سیکھتے اور اس سے ہدایت یافتہ ہوتے رہیں گے ۔

لیکن آخری زمانے میں قیامت قائم ہونے سے پہلے اللہ تعالی مومنوں کی روحوں کو قبض کر لے گا تو زمین پر سوائے برے لوگوں کے کوئی نہیں رہے گا نہ تو نماز اور نہ روزہ اور نہ ہی حج اور نہ ہی صدقہ اور نہ ہی اس وقت کعبہ کا وجود کا کوئی فائدہ ہو گا اور نہ ہی قرآن کے باقی رہنے کا تو اللہ تعالی ایک حبشی کے ہاتھوں کعبے کو خراب کرنا مقدر کرے گا ۔

صحیح بخاری میں (حدیث نمبر 1519) ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حدیث مروی ہے ۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( کعبے کو ایک چھوٹی پنڈلیوں والا حبشی خراب کرے گا)

اور اللہ تعالی زمین سے قرآن کو اٹھا لے گا تو سینوں اور مصاحف میں ایک آیت بھی باقی نہیں رہے گی اللہ تعالی کی غیرت کو یہ گوارا نہیں کہ اس کی کتاب زمین میں بلا فائدہ رہے اور اس پر عمل نہ کیا جائے تو اس وجہ سے یہ معاملہ پیش ائے گا ۔

تو خطرناک اور خوفزدہ کرنے والی حدیث سچے مسلمان کو اس طرف دھکیلتی ہے کہ وہ کتاب اللہ کو حفظ کرنے اور اس پر عمل کرنے اور ان کی تلاوت اور اس پر غور وفکر اور تدبر کرنے میں جلدی اور اس کا اہتمام کرے قبل اس کے وہ اس زمین سے اوپر اٹھا لیا جائے ۔

تو یہ آخری زمانے کے فتنوں میں سے ہے جس کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ :

( اعمال کرنے میں جلدی کرو قبل اس کے فتنے اس طرح پیدا ہو جائیں کہ جس طرح اندھیری رات ہوتی ہے آدمی صبح کو مسلمان ہو گا تو شام کے وقت کافر ہو جائے گا یا شام کو مسلمان ہو گا تو صبح کو کافر ہو گا وہ اپنے دین کو دنیا کے مال کے بدلے میں بیچ ڈالے گا۔

صحیح مسلم حدیث نمبر (169)

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ وہ ہمیں اپنے دین میں ثابت قدم رکھے اور ہم سے ظاہری اور باطنی فتنوں کو دور ہٹائے ۔ آمین

واللہ اعلم .

ماخذ: الشیخ محمد صالح المنجد