الحمد للہ.
جوكوئي بھي خريداري كرے اور اس كي قيمت ادا نہيں كرتا توبلاشك وشبہ وہ ان اشياء كا چور شمار ہوگا، اور چوري كبيرہ گناہوں ميں شمار ہوتي ہے، شريعت اسلاميہ نےداياں ہاتھ كاٹنااس كي حد مقرر كرركھي ہے:
فرمان باري تعالي ہے:
اور چوري كرنےوالےمرد اور چوري كرنےوالي عورت ان دونوں كےہاتھ كاٹ دو يہ ان كےاعمال كا بدلہ اور اللہ تعالي كي جانب سے سزا ہے المائدۃ ( 38 )
اور شريعت اسلاميہ نےچوري كرنےوالےپر حقداروں كےحقوق كي ادائيگي واجب كي ہے، اور جويہ حقوق ادا نہيں كرتا اسےذلت ورسوائي اور سزا ملے گي.
ابوحميد ساعدي رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
اللہ كي قسم تم ميں سے جوكوئي بھي كوئي ناحق چيز لےگا وہ روز قيامت اللہ تعالي سےملےگا تواس نےوہ چيز اٹھا ركھي ہوگي، تم ميں سے كوئي ايك اللہ تعالي سےملےگا تواس نےاونٹ اٹھاركھا ہوگا وہ اونٹ آواز نكال رہا ہوگا، يا پھر گائے اٹھائي ہوئي گي اور اس كي آواز ہوگي يا بكري وہ بھي ممنا رہي ہوگي.
پھر رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےاپنا ہاتھ بلند كيا حتي كہ ان كي بغل كي سفيدي نظر آنےلگي اور وہ يہ فرما رہےتھے: اللہ كيا ميں نےپہنچا ديا؟ صحيح بخاري حديث نمبر ( 6578 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1832 ) .
اس شخص كےليے يہ بھي ممكن ہےكہ اسے جو بھي طريقہ مناسب معلوم ہو اس طريقہ سے مال واپس كرے اور اپناآپ ظاہربھي نہ كرے، اور اگر مسروقہ چيز كسي ايسي جگہ كي ہو جہاں وہ پہنچاني ممكن نہ ہو يا پھر چوري كرنے والے كےليے اس جگہ كي تعيين كرني مشكل ہوجائے: تواس صورت ميں اسےچاہيے كہ وہ مالك كي جانب سے اس كي قيمت صدقہ كردے.
اور اگرمالك كو معلوم ہوجائےتو چوري كرنےوالے كوچاہيےكہ وہ مالك كواپني جانب سےصدقہ كرنے يا رقم واپس لينےكا اختيار دے، اگر مالك صدقہ اختيار كرلےتواسےاس كا اجروثواب ملےگا وگرنہ اسے اس كي قيمت ادا كرنا ہو گي اور صدقہ توبہ كرنے والےكي جانب سےہوگا ليكن شرط يہ ہے كہ وہ سچي توبہ كرے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالي كہتےہيں :
اگر اس نے كسي شخص يا پھر كسي ادارے كا مال چوري كيا ہو تو آپ پر واجب ہےكہ اس سےرابطہ كريں اور اسے كہيں كہ ميرےذمہ آپ كااتنا مال ہے، اور پھر آپ دونوں كےمابين صلح صفائي سے جواتفاق ہو اس پر عمل كريں.
ليكن ہوسكتا ہے كہ انسان كےليے ايسا كرنا مشكل ہو اور مثلا اس كے ليے اس شخص كےپاس جاكر يہ كہنا ممكن نہ ہو كہ ميں نےآپ كي فلاں چيز چوري كي تھي اور يہ يہ چيز اٹھائي تھي، تواس حالت ميں كسي دوسرے طريقہ سے اس تك اس كي قيمت پہنچائي جاسكتي ہے، يعني اس كےكسي دوست كو يہ رقم دے اور اسے كہےكہ يہ فلاں آدمي كي ہے اور اسے سارا قصہ اور ماجرا سنا دے اور كہے كہ اب ميں نے اللہ تعالي كےہاں ايسے كاموں سے توبہ كرلي ہے، اس ليے ميري گزارش ہےكہ آپ اس تك يہ رقم پہنچا ديں .
اور جب وہ ايسا كرتا ہے تو اسي كےبارہ ميں اللہ تعالي كا فرمان ہے:
اور جوكوئي بھي اللہ تعالي كا تقوي اختيار كرتا ہے اللہ تعالي اس كے ليے نكلنے كا راہ بنا ديتا ہے الطلاق ( 2 )
اور دوسري آيت ميں فرمان باري تعالي ہے:
اور جوكوئي بھي اللہ تعالي كا تقوي اختيار كرتا ہے اللہ تعالي اس كے معاملہ ميں آساني پيدا كرديتا ہے الطلاق ( 4 )
اور اگر يہ فرض كرليا جائےكہ آپ نے ايسےشخص كي چوري كي جس كے بارہ اب آپ كوكوئي علم نہيں اور نہ ہي آپ يہ جانتےہيں كہ وہ كہاں رہتا ہے: تويہ پہلےسےبھي آسان ہے، اس ليے آپ كےليے مالك كي جانب سے صدقہ كرنا ممكن ہے اور اس طرح آپ اس سےبري الذمہ ہوجائيں گے.
سائل نےجوقصہ ذكر كيا ہے اس جيسےمعاملہ سے يقينا انسان كودور رہنا اور اجتناب كرنا چاہيے؛ اس ليےكہ ہوسكتا ہے وہ طيش اور بےوقوفي كي حالت ميں ہواور چوري كرلے اور كوئي اہتمام نہ كرے اور جب اللہ تعالي اسے ھدايت نصيب فرمائے تواس كےليے اس سے خلاصي حاصل كرنےميں مشكل پيش آئے.
ديكھيں: فتاوي اسلاميۃ ( 4 / 162 )
اور مستقل فتوي كميٹي كےعلماء كرام كا ايسے سپاہي كےبارہ ميں جس نے كسي شخص كا مال چوري كيا ہو كہنا ہےكہ:
اگر تواسے اس شخص كا علم ہو يا پھر وہ كسي ايسے شخص كوجانتا ہو جسےوہ شخص معلوم ہے تواس كےليے اس شخص كي تلاش ضروري ہے تا كہ وہ اس تك اس كي چاندي اس كےسپرد كرسكے يا پھر اس كےبرابر رقم دے يا پھر ان كا جس پر اتفاق ہو وہ اس كےسپرد كرے .
اور اگر وہ اس شخص كونہيں جانتا يا پھر وہ اس كي تلاش سےنااميد ہو تو وہ مالك كي جانب سے وہ چاندي يا اس كےبرابر رقم صدقہ كردے، اور اگر صدقہ كرنے كےبعد اسے وہ شخص مل جاتا ہے تواس نےجوكچھ كيا ہے اسے اس كي خبر دے اگر تومالك اس كي اجازت ديتا ہے توبہتر اور اگر وہ اس كي مخالفت كرتا اور اپني رقم كا مطالبہ كرے تووہ اس كا ضامن ہوگا اور اسے وہ رقم ادا كرنا ہوگي تواس طرح صدقہ اس كي اپني جانب سے ہوگا، اور اس كے ساتھ ساتھ اسے چاہيے كہ اللہ تعالي كے ہاں توبہ كرے اور مالك كےليے دعا كرتا رہے.
ديكھيں : فتاوي اسلاميۃ ( 4 / 165 )
واللہ اعلم .