سوموار 22 جمادی ثانیہ 1446 - 23 دسمبر 2024
اردو

ایسے شخص کے روزے کا حکم جو رات کے وقت شراب نوشی کی وجہ سے دن کے کسی حصے میں ہوش میں آئے۔

312471

تاریخ اشاعت : 11-04-2020

مشاہدات : 5538

سوال

کیا ایسے شخص کے لیے روزہ رکھنا جائز ہے جس نے فجر کے وقت نشے کی حالت میں سحری کھائی؟ اور کیا وہ اپنا روزہ پورا کرے یا پھر پہلے ہوش میں آئے اور پھر روزہ رکھے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

نشہ آور چیز رمضان ہو یا غیر رمضان ہر وقت حرام ہے، تاہم رمضان میں اس کی حرمت شدید تر ہو جاتی ہے۔

تاہم ایسا شخص جو رات کے وقت [چاہے فجر سے کچھ پہلے ہی ہو] روزے کی نیت کر لے اور پھر دن کے کسی بھی حصے میں اسے ہوش آ جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے، لیکن اگر وہ سارا دن ہی بے ہوش رہتا ہے تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہوگا، اسے اپنے روزے کی قضا دینا ہو گی۔

جیسے کہ زکریا انصاریؒ "شرح منهج الطلاب مع حاشية البجيرمي " (2/ 76) میں کہتے ہیں:
"روزانہ کی بنیاد پر روزے کے لیے مسلمان ہونا، عقل مند ہونا اور حیض وغیرہ سے طہارت بطور شرط ضروری ہے، لہذا اگر جو شخص بھی ان میں سے کسی بھی چیز کے متضاد وصف میں پایا گیا تو اس کا روزہ صحیح نہیں ہو گا، بالکل ایسے ہی جیسے نماز میں ہوتا ہے۔
تاہم روزے دار کا سارا دن سوئے رہنا اس کے لیے نقصان دہ نہیں ہے، اور نہ ہی دن کے کچھ حصے میں بے ہوش ہونا، یا نشہ آور ہو جانا بھی نقصان دہ نہیں ہے، جبکہ سارا دن بے ہوش رہنے یا نشے میں دھت رہنے سے روزہ صحیح نہیں ہوگا؛ کیونکہ بے ہوشی اور نشے کی حالت انسان کو احکام شرعی کے مخاطبین سے نکال دیتے ہیں، جبکہ نیند میں ایسا نہیں ہوتا؛ کیونکہ نیند کی وجہ سے رہ جانے والی نماز کی قضا دینا واجب ہوتا ہے، جبکہ بے ہوشی یا نشے کی حالت میں ہونے کی وجہ سے فوت شدہ نمازوں کی قضا دینا ضروری نہیں ہے، یہاں پر نشے کا تذکرہ میری [یعنی مصنف زکریا انصاریؒ ]طرف سے اضافہ ہے، لہذا جو شخص رات کے وقت نشہ آور شے نوش کرے اور پھر دن کے کسی حصے میں اسے افاقہ ہو جائے تو اس کا روزہ صحیح ہے۔" ختم شد

سلیمان الجمل "شرح المنهج " کے اپنے حاشیے (2/ 334) میں کہتے ہیں:
"خلاصہ یہ ہے کہ: بے ہوشی اور نشہ کسی چیز کے زیادہ استعمال کی وجہ سے ہو یا کسی اور وجہ سے: اگر سارا دن ہی بے ہوشی رہے یا نشہ رہے تو اس پر قضا واجب ہوگی، وگرنہ نہیں۔ یعنی مطلب یہ ہے کہ اگر سارا دن بے ہوش نہیں رہتا ، اور اس نے فجر سے پہلے رات کے کسی بھی حصے میں روزے کی نیت بھی کر لی ہو تو اس کا روزہ کفایت کر جائے گا۔" ختم شد

دوم:

نشے کی وجہ سے عقل زائل ہو جائے تو اس سے وضو ٹوٹ جائے گا، تاہم غسل کرنا واجب نہیں ہوگا۔

جیسے کہ ابن قدامہ رحمہ اللہ کہتے ہیں :
"عقل دو انداز سے زائل ہوتی ہے: نیند کی وجہ سے یا نیند کے علاوہ کسی اور وجہ سے، تو نیند کے علاوہ کسی اور وجہ سے عقل زائل ہونے میں پاگل پن، بے ہوشی، اور نشے میں دھت ہونا شامل ہے، یا اسی طرح کی دیگر ادویات جن سے عقل زائل ہو جائے ، تو اس لیے عقل چاہے تھوڑے وقت کے لیے زائل ہو یا زیادہ وقت کے لیے اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، اس پر اجماع ہے۔" ختم شد
"المغنی" (1/ 128)

ابن قدامہ رحمہ اللہ مزید یہ بھی کہتے ہیں کہ:
"اگر مجنون اور بے ہوش شخص کو احتلام ہوئے بغیر ہی افاقہ ہو جائے تو اس صورت میں ان دونوں پر غسل کرنا واجب نہیں ہے، اور مجھے اس بارے میں کسی کے مخالف موقف کا بھی علم نہیں ہے۔۔۔ اور ویسے بھی عقل کا زائل ہونا ذاتی طور پر موجب غسل نہیں ہے، دوسری طرف انزال کا ہونا حتمی بھی نہیں ہے بلکہ مشکوک ہے، اس لیے یقینی چیز کو غیر حتمی چیز کی وجہ سے تسلیم نہیں کریں گے۔
ہاں اگر یہ یقین ہو جائے کہ انہیں انزال ہو گیا ہے، تو پھر ان پر غسل کرنا واجب ہو گا؛ کیونکہ انزال احتلام سے ہوتا ہے، اس لیے انزال کی وجہ سے ان پر غسل واجب ہو گا۔" ختم شد
"المغنی" (1/ 155)

اس لیے نشہ کرنے والے شخص کو اللہ تعالی کی بار گاہ میں توبہ کرنی چاہیے، وضو کرے اور نماز پڑھے، اس کا روزہ صحیح ہے، چاہے وہ تاخیر سے ہی وضو کرے، وضو نماز وغیرہ کے ارادے کے وقت ضروری ہوتا ہے، اس کا روزے کے صحیح ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب