جمعرات 25 جمادی ثانیہ 1446 - 26 دسمبر 2024
اردو

خاتون نے روزے کی نیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر حیض آ گیا تو روزہ چھوڑ دے گی، تو کیا یہ معلق نیت ہے؟ اور کیا اس کا روزہ صحیح ہو گا؟

سوال

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صبح حیض شروع ہو جائے، تاہم پھر بھی میں نے روزے کی نیت کر لی اور کہا کہ میں صبح رمضان کا روزہ رکھوں گی اور اگر حیض شروع ہو گیا تو میں روزہ چھوڑ دوں گی، تو کیا اس طرح کی معلق نیت کرنے سے میرا روزہ باطل ہو جائے گا یا صحیح ہو گا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

روزے کی پختہ نیت فجر سے پہلے کرنا ضروری ہے؛ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے: (جو شخص فجر سے پہلے روزے ارادہ نہ کرے تو اس کا روزہ نہیں )، اس حدیث کو ابو داود: (2454) ، ترمذی: (730) اور نسائی: (2331) نے روایت کیا ہے، اور نسائی کے الفاظ ہیں کہ: (اور جو شخص فجر سے پہلے رات کو روزے کی نیت نہ کرے تو اس کا روزہ نہیں ہے۔) اس حدیث کو البانی نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔

چنانچہ اگر عورت طہر میں تھی اور اس نے صبح روزہ رکھنے کی نیت کی اور کہا: اگر حیض آ گیا تو میں روزہ چھوڑ دوں گی، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ یہ نیت کو معلق کرنے صورت نہیں ہے؛ یہاں اس کی روزہ رکھنے کی نیت پختہ ہے۔

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اگر کوئی شخص روزہ توڑنے  میں متردد ہو کہ توڑے یا نہ توڑے، یا کسی شخص کے آنے یا کسی اور چیز پر روزہ توڑنے کی نیت معلق کرے تو جمہور اہل علم نے جو صراحت کے ساتھ لکھا ہے وہ یہ ہے کہ اس کا روزہ باطل نہیں ہو گا۔" ختم شد
"روضة الطالبين" (1/333)

روزے کو توڑنے میں تردد کرنے پر روزہ نہیں ٹوٹتا جبکہ نماز توڑنے  میں تردد یا نماز کو کسی مستقبل کے کام کے ساتھ معلق کرنے پر نماز ٹوٹ جاتی ہے، اس تفریق کی وجہ بیان کرتے ہوئے امام ابو القاسم رافعی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اگر روزے دار اس بات میں متردد ہو کہ وہ روزہ چھوڑے یا نہ چھوڑے، یا روزہ چھوڑنے کی نیت کو کسی کے آنے کے ساتھ معلق کر دے، تو اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ اس کا روزہ باطل نہیں ہوگا، اور ان کی گفتگو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف بھی نہیں ہے۔
ابن صباغ کتا ب الصوم میں لکھتے ہیں کہ: ابو حامد نے اس کی دو وجوہات بیان کی ہیں۔۔۔
نماز اور روزے میں فرق یہ ہے  کہ: نماز کی ابتدا اور انتہا کا تعلق بندے کے ارادے سے ہے، اور یہ بندے کے اختیار میں ہوتا ہے، لیکن روزے میں ایسا نہیں ہوتا، چنانچہ رات کے وقت جس شخص نے روزے کی نیت کی تو اس کا روزہ طلوع فجر ہوتے ہی شروع ہو  جائے گا، اور غروب آفتاب سے ہی  اس کا روزہ ختم ہو جائے گا، چاہے اسے روزے کے آغاز یا اختتام کا علم ہی نہ ہو۔

اور اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو  نیت کے کمزور ہونے سے نماز روزے کے مقابلے میں زیادہ متاثر ہو گی، یہی وجہ ہے کہ روزے کے آغاز سے پہلے ہی روزے کی نیت کرنا جائز ہے، اسی طرح مجموعی طور پر آغاز کے بعد بھی نیت کرنا جائز ہے، لیکن نیت کی اس طرح تقدیم و تاخیر نماز میں جائز نہیں ہے۔
اور اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ: نماز افعال اور اقوال کا نام ہے، جبکہ روزے میں چیزوں کو ترک کیا جاتا ہے اور اپنے آپ کو روکا جاتا ہے، اس لیے کام ترک کرنے کی بہ نسبت کام کرنے کے لیے نیت کی زیادہ اشد ضرورت ہوتی ہے۔" ختم شد
"العزيز شرح الوجيز" (1/466)

تو چاہے خاتون نے یہ بات دل میں کہی ہے یا نہیں، جب حیض آ جائے تو پھر روزہ چھوڑنا لازمی ہوتا ہے، تو دوسرے لفظوں میں اس خاتون نے اپنے دل میں اس بات کا اعادہ کیا ہے جو اسے لازمی طور پر کرنا پڑتا ، [اس لیے یہ بات کہنے سے اس کے روزے پر کوئی اثر نہیں ہو گا۔]

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب