الحمد للہ.
مہمانوں میں سے مالداروں کے لیے خاص کھانے اور مخصوص نشستوں پر انہیں بٹھانے کا اہتمام کرنے سے ضیافت کا اصلی ہدف بالکل فوت ہو جاتا ہے، یعنی عزت افزائی کرنا اور حسن اخلاق سے پیش آنا۔
اس طرح کی ضیافت سے تو دیگر مہمانوں کے دلوں میں احساس کمتری اور دکھ کے تاثرات پیدا ہو سکتے ہیں۔
ابن العربی رحمہ اللہ کھانے کی دعوت میں غریب اور امیر لوگوں کے درمیان تفریق ڈالنے سے متعلق کہتے ہیں:
"اس سے ان کے دل ٹوٹ جائیں گے، اور مہمانوں کے دلوں میں میزبان کے متعلق اتنی نفرت اور کدورت پیدا ہو گی جو پیٹ بھر کر کھانا کھانے سے بھی زائل نہ ہو سکے گی۔ " ختم شد
"عارضة الأحوذي" (5 / 9)
اور ایسا کھانا جو صرف صاحب ثروت لوگوں کے لیے خاص ہو حدیث کے مطابق بد ترین کھانا ہے۔
جیسے کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ: "بد ترین دعوت طعام ایسی دعوت ہے جس میں صرف امیر لوگوں کو بلایا جائے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جائے۔" اس حدیث کو امام بخاری: (5177) اور مسلم : (1432) نے روایت کیا ہے۔ صحیح مسلم کی ایک روایت کے مطابق یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مرفوعاً منقول ہے۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد لوگوں کے طرزِ عمل کی نشاندہی کی گئی ہے کہ وہ ولیمے وغیرہ میں امیروں کا خیال رکھیں گے اور انہی کو دعوت دیں گے، اچھے اچھے کھانے انہی کو پیش کریں گے، ان کے لیے بیٹھنے کی جگہ بھی دوسروں سے معزز بنائیں گے اور ہر جگہ پر انہیں پیش ، پیش رہنے کا موقع دیں گے، اسی طرح کے دیگر معاملات اپنائیں گے جو کہ آج کل ایسے ہی ہے۔ اللہ تعالی ہماری راہ حق پر چلنے کے لیے مدد فرمائے۔" ختم شد
"شرح صحيح مسلم" (9 / 237)
اسی طرح علامہ ابن ہبیرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس حدیث میں یہ ہے کہ کھانا بطور کھانا نام اور جنس میں یکساں ہوتا ہے، لیکن کھانا کھلانے والے کے اہداف سے اس میں تفریق پیدا ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اگر کوئی شخص صرف امیروں کو کھانا کھلانے کے لیے کھانا تیار کرے حالانکہ انہیں کھانے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن پھر بھی ان کے آنے پر اصرار اور تکلف کرے، اور ان لوگوں کو نہ بلائے جنہیں کھانے کی ضرورت ہے تو یہی در حقیقت نقصان ہے ۔۔۔ کیونکہ کھانا بنیادی طور پر اس لیے بنایا جاتا ہے کہ صاحب حیثیت کی جانب سے بھوکے شخص کو کھلایا جائے، تو جب یہاں ہدف ہی الٹ ہے تو کھانے کا مقصد بھی فوت ہو گیا۔" ختم شد
"الإفصاح" (6 / 285)
تو نتیجہ یہ ہوا کہ: میزبان کو ایسے نہیں کرنا چاہیے؛ کیونکہ اس عمل کی بنیاد کسی شرعی مصلحت پر نہیں ہے بلکہ شرعاً خرابی پر ہے؛ کیونکہ اس سے مہمانوں کے دلوں میں احساس کمتری اور کدورت پیدا ہو گی، اس طرح شیطان باہمی تعلقات کو خراب کرنے اور اسلامی اخوت میں دراڑ ڈالنے میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ چنانچہ شریعت ہر ایسے کام سے روکتی ہے جس کا مذکورہ نتیجہ برآمد ہو سکتا ہو، جیسے کہ سرگوشی کے متعلق شریعت نے منع کیا ہے کہ جیسے کہ سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جب تم تین ہو تو دو آپس میں سرگوشی نہ کریں کہ اس سے تیسرے کو دکھ ہو گا۔) اس حدیث کو امام بخاری: (6290) اور مسلم : (2184) نے روایت کیا ہے۔
لہذا ہر وہ کام جو مسلمان کے دل میں دکھ پیدا کرے تو شریعت اس سے منع فرماتی ہے۔
واللہ اعلم