الحمد للہ.
اول:
ملازم چیزوں کو فروخت کر کے جو کمیشن وغیرہ لیتا ہے وہ دو طرفہ متفقہ ہونا ضروری ہے؛ کیونکہ اس کمیشن کو بھی تنخواہ کا حصہ مانا جاتا ہے، نیز یہ بھی ہے کہ اگر کمیشن کی مقدار متفقہ نہ ہو تو اس سے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں۔
نیز کسی بھی کمپنی کے لیے یہ لازمی نہیں ہے کہ اپنے ملازمین کو عرف عام کے مطابق کمیشن دے، کمیشن باہمی اتفاق کے مطابق دیا جاتا ہے اس لیے یہ عرف سے کم بھی ہو سکتا ہے زیادہ بھی اور اس کے مطابق بھی۔
اس لیے آپ کمپنی کے مینجر سے رابطہ کریں اور کمیشن کی مقدار میں باہمی معاہدہ کریں، معاہدے کے بعد آپ اپنی محنت کے مطابق کمیشن کا مطالبہ کر سکتے ہیں۔
دوم:
کسی بھی چیز کو فروخت کے لیے مقرر کیے جانے والے نمائندے کو اس چیز کی قیمت میں اضافہ کرنے کی اجازت اسی وقت ہو گی جب موکل قیمت بڑھانے کی اجازت دے؛ کیونکہ نمائندہ اور وکیل اپنے موکل کی ہدایات کے پابند ہوتے ہیں۔
نہ ہی نمائندے کے لیے یہ جائز ہے کہ قیمت میں اضافہ کر دے اور زائد رقم خود رکھ لے، یہ خیانت میں شمار ہو گا، نیز باطل طریقے سے مال ہڑپ کرنے کے زمرے میں آئے گا، بلکہ جتنا بھی نفع ہو وہ سارے کا سارا موکل کا ہی ہو گا، نمائندے اور وکیل کو صرف اتنا ہی ملے گا جس پر اتفاق ہوا ہے۔
دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"ایک آدمی کسی کا سامان تجارت فروخت کرتا ہے؛ یعنی موکل اسے بیچنے کے لیے سامان تجارت دیتا ہے تو یہ وکیل اور نمائندہ اسے فروخت کرتے ہوئے اس کی قیمت میں اضافہ کر دیتا ہے اور اس اضافی رقم کو اپنی جیب میں ڈالتا ہے، تو کیا یہ سود میں آئے گا؟ اور اس کا حکم کیا ہے؟"
تو انہوں نے جواب دیا:
"سامان تجارت فروخت کرنے والا اس شخص کا نمائندہ اور وکیل ہے، اور اس کو سامان تجارت کے ساتھ ساتھ اس سامان کی قیمت پر بھی امین بنایا گیا ہے، لہذا اگر وہ اس سامان کی قیمت میں سے کچھ بھی مالک کی اجازت کے بغیر رکھتا ہے تو یہ شخص امانت میں خیانت کا مرتکب ہوتا ہے، جو کچھ بھی وہ اس انداز سے لے رہا ہے وہ حرام مال ہے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (14/274)
سوم:
جب صریح لفظوں میں کمیشن کی مقدار پر اتفاق ہو جائے اور پھر کمپنی اپنے ملازمین کو متفقہ کمیشن نہ دے ، اور اس استحقاقی کمیشن کو حاصل کرنے کے لیے کوئی جائز وسیلہ بھی نہ ملے ، پھر اس کمپنی کا مال اسے کہیں سے ہاتھ لگ جائے تو وہ اس مال میں سے اپنا حقیقی کمیشن لے سکتا ہے، اس کو علمائے کرام کے ہاں "مسئلہ ظفر" کہا جاتا ہے۔
لیکن یہ بالکل بھی جائز نہیں ہے کہ آپ سامان کی قیمت زیادہ کر دیں؛ کیونکہ یہ بات تو کسی کی نمائندگی اور وکالت کے بالکل خلاف ہے، بلکہ یہ واضح زیادتی بھی ہے، اور ہم نے جو بات کی ہے وہ ایسی صورت میں ہے کہ آپ کو کمپنی کی رقم کہیں سے مل جائے مثلاً : کمپنی کے گاہکوں سے آپ کمپنی کی رقوم لیں [اور ان میں سے اپنے حق کے برابر خود رکھ لیں] کہ طریقہ ایسا ہو کہ آپ پر کسی قسم کی خرد برد کا الزام بھی نہ لگے، اور نہ ہی آپ کو اس کی وجہ سے سزا ملنے کا خدشہ ہو، پہلے بیان کردہ "مسئلہ ظفر" میں فقہائے کرام یہ شرط بھی لگاتے ہیں۔
واللہ اعلم