منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

ایک شخص نے پتھر اس لیے خریدا کہ یہ محبوب کو کھینچ لاتا ہے۔

سوال

میں 20 سالہ نوجوان ہوں، تقریباً ڈیڑھ سال پہلے میں نے سنا کہ کچھ پتھر اور انگوٹھیاں محبت  کرنے اور لڑکیوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے ہوتے ہیں، ان کے دیگر فوائد بھی ذکر کیے جاتے ہیں، میں اُس وقت نمازوں کی پابندی نہیں کیا کرتا تھا، تو میں ایک سلیمانی نامی پتھر خریدنے کے لیے گیا، تو مجھے دکاندار نے بتلایا کہ محبت تو اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے۔ اس کے بعد اس نے کہا کہ سلیمانی پتھر کو کار آمد بنانے کے لیے اس پر آپ کا نام کندہ کرنا لازمی ہے، اسے لے کر میں گھر پہنچ گیا اور اسے گھر میں رکھ دیا، میں نے اس پتھر کو استعمال نہیں کیا، نہ ہی اسے اپنے گلے میں لٹکایا، بلکہ میں نے اسے بالکل کسی صورت میں بھی استعمال نہیں کیا، پھر دو ہفتوں کے بعد میں نے اس پتھر کو گھر سے باہر پھینک دیا، تو کیا میں نے شرک اکبر کا ارتکاب کیا ہے یا اصغر کا؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

سب سے پہلے تو ہم آپ کو نمازوں کی پابندی کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں، اور اس بات پر بھی کہ آپ نے دینی امور کے متعلق تفصیلات پوچھنے کی کوشش ۔

تو ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کے لیے دعا گو ہیں کہ ہمیں ہدایت پر چلنے کی توفیق دے اور ہمیں اس پر ثابت قدم بھی رکھے۔

سوال میں مذکور پتھروں اور انگوٹھیوں کے بارے میں یہ ہے کہ یہ بلاشبہ ممنوعہ  تعویذوں میں شامل ہیں ، نیز ان کے بارے میں نفع یا نقصان پہنچنے کا نظریہ رکھنے سے منع بھی کیا گیا ہے۔

جیسے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: (بلا شبہ [شرکیہ] دم  کرنا، نیز تعویذ اور دھاگے باندھنا شرک ہے) اس حدیث کو ابو داود: (3883)، ابن ماجہ: (3530) نے اسے روایت کیا ہے اور شیخ البانی نے اسے سلسلہ صحیحہ : (331) اور (2972) میں صحیح کہا ہے۔

یہاں پر [حدیث میں مذکور عربی لفظ تمائم یعنی]تعویذ سے مراد ایسے تمام پتھر، گھونگے اور دیگر اشیا ہیں جنہیں انسان اپنی کسی بھی حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پہنتا ہے۔

مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (10543) کا جواب ملاحظہ فرمائیں۔

دوم:

آپ کے سوال سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ یہ نظریہ رکھتے تھے کہ صرف اللہ تعالی ہی دلوں میں محبت ڈالنے والا ہے، تو اس بنا پر آپ کا عقیدہ یہ ہوا کہ آپ ان پتھروں کو محبت کے معاملے میں مؤثر سمجھتے تھے؛ اور یہ عقیدہ شرک اکبر میں نہیں آتا۔

تاہم یہ عقیدہ حرام اور ممنوع ضرور ہے، نیز یہ عقیدہ شرک اصغر بھی ہے؛ کیونکہ یہ شرک اکبر کا راستہ کھولتا ہے اور انسانی عقل کو خرافات اور وہمی چیزوں کا شکار بنا کر کمزور بھی کرتا ہے۔

الشیخ عبد الرحمن المعلمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
"یہ بات واضح رہے کہ کسی چیز کے بارے میں یہ نظریہ کہ کوئی مخصوص چیز کسی مخصوص نتیجے کا سبب بنتی ہے یا مخصوص نتیجے کی علامت ہوتی ہے ، ایسا نظریہ یقین تک پہنچانے والے تجربے اور مشاہدے کی بنا پر  دل میں قائم ہو جاتا ہے، اس کے بارے میں کوئی مذہبی نظریہ کارفرما نہیں ہوتا۔۔۔
اور بسا اوقات یہ مذہبی عقیدہ اور نظریہ بھی ہو سکتا ہے اور اس وقت اس کا تعلق کسی غیبی معاملے کے بارے میں ہو گا، جیسے کہ یہ عقیدہ رکھنا کہ حجر اسود خیر و برکت کا سبب ہے۔۔۔
 اور بسا اوقات ان دونوں اقسام کے درمیان متردد بھی ہو سکتا ہےکہ کیا اس کا تعلق پہلی قسم سے ہے یا دوسری سے؟ اس کے لیے مثال ان پتھروں کی دی جا سکتی ہےجن کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ قلبی فرحت کا باعث بنتے ہیں یا نظر بد سے بچاتے ہیں یا جنّوں سے تحفظ فراہم کرتے ہیں؟

اس کے متعلق حکم یہ ہے کہ –کامل علم تو اللہ تعالی کے پاس ہے- جو شخص بھی یہ سمجھتا ہے کہ اس مخصوص چیز کی تاثیر حسی اور مشاہدے پر مبنی اثرات پر مشتمل ہے، لیکن اسے اس سبب کا علم نہیں ہو سکا، تو پھر اس کا تعلق پہلی قسم سے ہے، تاہم سد ذرائع کے طور پر [جب تک اس کا سبب معلوم نہ ہو جائے۔ مترجم]ایسی چیز کے استعمال سے روکا جائے گا ۔
اور اگر اس کے بارے میں نظریہ یہ ہو کہ اس کی تاثیر غیبی امور سے متعلق ہے ؛ مثلاً: یہ کہنا کہ یہ پتھر اللہ کا محبوب ہے، یا فرشتے اس پتھر کو پسند کرتے ہیں یا جن وغیرہ تو پھر اس کا تعلق دوسری قسم سے ہے۔

اور یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ ایسا مذہبی نظریہ رکھنا جو کہ اللہ تعالی نے شریعت میں شامل نہیں کیا تو وہ شرک ہے۔۔۔" ختم شد
"العبادة" (571 – 572)

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال پوچھا گیا کہ:
"میں اپنی دادی کے گھر ملنے گئی تو میں نے دیکھا کہ انہوں نے دیوار پر ایک خنجر لٹکایا ہوا ہے، ان کا یہ ماننا ہے کہ یہ خنجر حسد کے برے اثرات سے تحفظ فراہم کرتا ہے، اسے ہمارے ہاں "صبایوں" کہتے ہیں، تو میں نے اپنی دادی اماں کو سمجھایا کہ یہ اللہ تعالی کے ساتھ شرک ہے، اور صرف اللہ وحدہ لا شریک پر توکل کرنا واجب اور ضروری ہے، ہم کسی اور سے بالکل بھی مدد طلب نہیں کر سکتے۔۔۔"

تو انہوں نے جواب دیا:
"۔۔۔ آپ نے اپنی دادی اماں کو نصیحت کر کے بہت اچھا کیا ، آپ نے انہیں سمجھایا اور نصیحت کر کے بہت اچھا اقدام کیا۔۔۔

اس خنجر کا تعلق بھی انہی تعویذوں سے ہے جو بچوں کے گلوں اور دیگر چیزوں کو پہنائے جاتے ہیں؛ کیونکہ ان کا عقیدہ بھی یہی ہوتا ہے کہ یہ گھونگے اور تعویذ نظر بد یا حسد سے بچاتے ہیں، تو خنجر کے متعلق اس نظریے اور عقیدے کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس کا حکم وہی ہے جو بچوں کو تعویذ باندھنے کا ہے، پھر یہ عقیدہ رکھنا کہ یہ خنجر وغیرہ نظر بد سے بچاتے ہیں یا جنوں کا بھگاتے ہیں تو یہ شرک اصغر ہے، لہذا یہ گناہ کا کام ہے ، اس کا تعلق تعویذوں سے ہی ہے، آپ نے اس خنجر کو ہٹا دیا تو یہ آپ نے اچھا کیا۔

تاہم اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ کوئی پتھر یا تعویذ وغیرہ اللہ کی مرضی کے بغیر ہی چیزوں پر اثر انداز ہوتا ہے تو یہ شرک اکبر ہو جائے گا، لیکن لوگوں میں سے اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ان پتھروں وغیرہ میں خیر ہے، تو یہ نظریہ بھی باطل ہے اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، چنانچہ جن چیزوں کو بچوں کے گلے میں لٹکاتے ہیں یا کسی اور چیز پر خیر کی نیت سے باندھتے ہیں تو یہ بے دلیل بات ہے، اسی طرح کسی پتھر اور دیوار پر لٹکائے جانے والے خنجر میں بھی کسی تاثیر کی کوئی دلیل نہیں ہے، اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں ایسے نظریات سے محفوظ فرمائے۔" ختم شد
"فتاوى نور على الدرب" (1 / 368 - 369)

اس بارے میں آپ مزید معلومات کے لیے سوال نمبر: (192206) کے جواب کا مطالعہ کریں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب