جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

مذی سے پاکی حاصل کرنے کا طریقہ

سوال

اگر مذی خارج ہونے کی صورت میں خصیوں کو دھوئے بغیر نماز ادا کر لی جائے تو کیا نماز صحیح ہو گی؟ میں نے سنا ہے کہ شافعی، مالکی ، احناف اور حنابلہ میں سے متعدد اہل علم یہ کہتے ہیں کہ مذی خارج ہونے کی صورت میں خصیوں کو دھونا ضروری نہیں ہے۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

مذی نجس ہوتی ہے اور اس سے پاکی حاصل کرنا واجب ہے۔

جیسے کہ ابن عبد البر رحمہ اللہ مذی کے بارے میں تفصیل ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں:
"مذی معروف اور معتاد چیز ہے۔۔۔ یہ نجس ہوتی ہے اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اور اگر جسم یا کپڑے پر لگی ہو تو اسے دھونا واجب ہے، اس موقف پر مسلمانوں کا اجماع ہے، اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔"
"التمهيد" (21 / 207)

چنانچہ اگر مذی خارج ہو اور جسم کو بھی لگ جائے تو جس جگہ مذی لگی ہوئی ہو اسے دھونا لازم ہے؛ لہذا اگر کسی شخص کو علم ہو کہ اس کے جسم پر مذی لگی ہوئی ہے اور وہ جان بوجھ کر اسے دھوئے بغیر نماز پڑھتا ہے تو اس کی نماز صحیح نہیں ہو گی۔

آپ نجس بدن یا کپڑوں کے ساتھ نماز ادا کرنے کے بارے میں حکم جاننے کے لیے سوال نمبر: (12720) اور (195117) کا جواب ملاحظہ کریں۔

دوم:
جب خصیوں کو مذی لگ جائے تو اس نجاست کو دور کرنے کے لیے خصیوں کو دھونا لازمی ہے، جیسے کہ پہلے بھی یہ بات گزر چکی ہے۔

لیکن اگر خصیوں کو مذی نہ لگے ، اور نہ ہی مذی اپنے خارج ہونے کے سوراخ سے آگے کہیں اور لگے تو اس صورت حال میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا صرف سوراخ والی جگہ ہی دھونا ضروری ہے یا مکمل آلہ تناسل کو دھونا ضروری ہے، یا اس کے ساتھ خصیوں کو بھی دھویا جائے گا؟

تو اس بارے میں امام احمد کا موقف یہ ہے کہ: وہ آلہ تناسل اور خصیے سب کو دھوئے گا۔

جیسے کہ مرداوی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"اگر مذی کو نجس قرار دیں تو پھر صحیح حنبلی فقہی موقف کے مطابق جب بھی مذی خارج ہو تو آلہ تناسل اور خصیوں سب کو دھویا جائے گا۔" ختم شد
"الإنصاف" (2 / 328 - 329)

اس کی دلیل یہ ہے کہ صحیح بخاری اور مسلم میں علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آلہ تناسل کو دھونے کا حکم دیا۔ اس حدیث کے ظاہری الفاظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مکمل آلہ تناسل کو دھویا جائے گا۔ نیز صحیح بخاری اور مسلم کے علاوہ دیگر کتب حدیث مثلاً: مسند احمد وغیرہ میں یہ بھی ہے کہ خصیوں کو بھی دھونے کا حکم دیا گیا ہے۔

حدیث کے الفاظ کچھ یوں ہیں: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "مجھے بہت زیادہ مذی خارج ہونے کا سامنا تھا، تو چونکہ میرے عقد میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی تھی اس لیے [شرماتے ہوئے ] میں نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں استفسار کرے، تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے سوال رکھا تو آپ نے فرمایا: (وضو کرو اور اپنے عضو خاص کو دھو لو)" اس حدیث کو بخاری: (269) اور مسلم: (303) نے روایت کیا ہے۔

اس حدیث میں عربی لفظ "ذَکَر" یعنی عضو خاص کا ذکر ہے جس کا تقاضا ہے کہ پورے عضو کو دھویا جائے، تاہم جمہور علمائے کرام اس بات کے قائل ہیں کہ یہاں عضو خاص سے مراد مذی خارج ہونے کی جگہ ہے، پورا عضو مراد نہیں ہے؛ جمہور علمائے کرام نے اپنی اس بات کو دیگر نجاستوں پر قیاس کرتے ہوئے بھی تقویت پہنچائی ہے کیونکہ دیگر نجاستوں میں بھی پورے عضو کو نہیں دھویا جاتا بلکہ صرف نجاست والی جگہ ہی دھوئی جاتی ہے۔

اسی طرح ابن دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا مکمل طور پر مخصوص عضو کو دھویا جائے گا یا صرف نجاست کی جگہ کو؟ تو جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ صرف نجاست کی جگہ ہی دھوئی جائے گی۔۔۔" ختم شد
"أحكام الأحكام" (1 / 74)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ:
"واجب یہ ہے کہ جس جگہ نجاست لگی ہو صرف اسی جگہ کو دھونا ضروری ہے، یہی ہم شافعی فقہائے کرام اور جمہور اہل علم کا موقف ہے۔"
"المجموع" (2 / 144)

اور ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مذی خارج ہونے کی صورت میں عضو خاص کو دھونے کے حکم کے بارے میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ کیا صرف اتنے ہی حصے کو دھونا ضروری ہے جہاں نجاست یعنی پیشاب وغیرہ لگا ہوا ہے یا پورا آلہ تناسل ہی دھونا ضروری ہے؟
اس میں دو موقف ہیں: اور دونوں ہی امام مالک اور امام احمد سے مروی ہیں" ختم شد
"فتح الباری" (1 / 304)

ابن دقیق العید رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"جمہور اہل علم یہاں پر لفظ "ذَکَر" کے معنی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سے حقیقت مراد نہیں لیتے؛ کیونکہ موجب غسل چیز صرف نکلنے والی نجاست ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف اتنی ہی جگہ کو دھویا جائے۔" ختم شد
"أحكام الأحكام" (1 / 74)

اسی طرح ابو جعفر طحاوی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"اس کو عقلی طور پر دیکھیں تو مذی کے نکلنے سے بے وضگی پیدا ہوئی، اب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی ایسی چیز خارج ہو جس سے بے وضگی پیدا ہو تو کیا کرنا پڑتا ہے؟
چنانچہ پاخانہ نکلنے پر صرف اتنے ہی حصے کو دھونا لازمی ہے جہاں پاخانہ لگے، کسی اور جگہ کو دھونا ضروری نہیں ہے، ہاں اگر نماز پڑھنی ہے تو اس کے لیے وضو کرنا ضروری ہے، اسی طرح جو شخص خون نکلنے سے وضو ٹوٹنے کا قائل ہے تو جسم کے کسی بھی حصے سے نکلے [تو اتنا حصہ ہی دھونا ضروری ہے جہاں خون لگا ہوا ہو۔]

لہذا مذی کے بارے میں بھی عقل یہی کہتی ہے کہ مذی کو دھونے کا حکم بھی اتنا ہی ہو، چنانچہ مذی کا نکلنا بھی وضو ٹوٹنے کا باعث ہے، اس سے غسل جنابت تو فرض نہیں ہوتا ہے، تاہم صرف اتنا حصہ دھونا ضروری ہے جہاں مذی لگی ہوئی ہو، ہاں نماز کے لیے وضو کرنا ضروری ہے، تو عقلی طور پر بھی ہماری ذکر کردہ بات ثابت ہو گئی ۔

اور یہی موقف ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد بن حسن شیبانی رحمہم اللہ کا ہے۔" ختم شد
"شرح معانی الآثار" (1 / 48)

دوسرے فریق نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ جس جگہ سے مذی خارج ہو اس جگہ سے زیادہ دھونے کے واجب ہونے میں کوئی ممانعت بھی نہیں ہے، بلکہ اس کی مثال شریعت میں ملتی ہے، اور وہ یہ کہ منی خارج ہونے پر صرف اسی جگہ کو نہیں دھویا جاتا بلکہ پورے جسم کو دھونا ضروری ہوتا ہے، انہوں نے اس کا ایک فائدہ بھی ذکر کیا ہے کہ آلہ تناسل اور خصیوں کو دھونے سے منی خارج نہیں ہو گی۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چونکہ یہ شہوت سے خارج ہوتی ہے، اس لیے صرف مذی نکلنے کی جگہ سے زیادہ حصے کو دھونا ضروری ہوا، بالکل ایسے ہی جیسے منی میں سارے جسم کو دھونا ضروری ہو جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ منی خصیوں میں جمع ہوتی ہے، تو جب خصیوں کو دھو دیا جاتا ہے تو منی نکلنا بند ہو جاتی ہے، اور نکلنے کے آثار بھی زائل ہو جاتے ہیں" ختم شد
"شرح العمدة" (1/103)

امام احمد ؛مسند احمد: (2/293) میں اور ابو داود: (208) میں ہشام بن عروہ سے بیان کرتے ہیں اور وہ اپنے والد عروہ سے کہ: "سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے مقداد رضی اللہ عنہ کو اسی طرح کی بات کہی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا تو آپ نے فرمایا: (اسے چاہیے کہ اپنا آلہ تناسل اور خصیے دھو لے)"

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ "التلخیص التحبیر" (1/117)کہتے ہیں کہ:
"اس روایت کو ابو داود نے عروہ کی سند سے بیان کیا ہے کہ وہ سیدنا علی سے بیان کرتے ہیں، اس میں ہے کہ: (اسے چاہیے کہ اپنا آلہ تناسل اور خصیے دھو لے) لیکن یہ روایت عروہ نے علی رضی اللہ عنہ سے نہیں سنی، تاہم اسی روایت کو ابو عوانہ نے اپنی صحیح میں عبیدہ کی سند سے سیدنا علی سے روایت کیا ہے اور اس میں یہ اضافہ بھی مذکور ہے، اور عبیدہ کی سند پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں ہے۔" ختم شد

اسی طرح علامہ صنعانی رحمہ اللہ "سبل السلام" (1/199) میں کہتے ہیں:
"لہذا اس حدیث کے صحیح ہونے کے بعد اس حدیث کے مطابق قائل ہونے کا کوئی عذر باقی نہیں رہ جاتا۔" ختم شد

اسی طرح ابو داود: (211) میں علاء بن حارث ، حرام بن حکیم سے بیان کرتے ہیں وہ اپنے چچا عبد اللہ بن سعد انصاری سے کہ: "میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غسل واجب کرنے والی اشیا کے بارے میں دریافت کیا ، اور اس پانی کے بارے میں پوچھا جو کہ منی کے بعد نکلتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اس پانی کو مذی کہتے ہیں، اور ہر مرد سے مذی خارج ہوتی ہے، تم مذی خارج ہونے پر اپنی شرمگاہ اور خصیوں کو دھو لو اور نماز جیسا وضو کر لو۔) "اس حدیث کو شیخ البانی نے صحیح سنن ابو داود: (1/381) میں صحیح قرار دیا ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"مذی خارج ہونے پر واجب یہ ہے کہ عضو خاص اور خصیوں کو دھویا جائے۔" ختم شد
"فتاوى الشیخ ابن باز" (17/58)

ایسے ہی دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ:
"مذی نجس ہے، جب آپ کی مذی خارج ہو تو عضو خاص کو شروع سے لے کر آخر تک اور خصیوں کو دھونا ضروری ہے، پھر لباس اور بدن پر جہاں مذی لگی ہو وہاں پانی کے چھینٹے ماریں؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے علی رضی اللہ عنہ کو آلہ تناسل اور خصیوں کو دھونے کا حکم دیا تھا، اور مذی خارج ہونے پر وضو کا کہا نیز کپڑے پر جہاں لگی ہو اس پر چھینٹے مارنے کا حکم دیا"
اللہ تعالی عمل کی توفیق دے، درود و سلام ہوں ہمارے نبی محمد پر اور آپ کے صحابہ کرام پر۔

دائمی کمیٹی برائے علمی تحقیقات و فتاوی

عبد اللہ بن قعود۔۔۔ عبد اللہ بن غدیان۔۔۔ عبد الرزاق عفیفی۔۔۔ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (5/382)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"مذی خارج ہونے کی صورت میں آلہ تناسل اور خصیوں کو دھونے کے متعلق راجح موقف کیا ہے؟"

اس پر انہوں نے جواب دیا:
"راجح یہ ہے کہ دھونا واجب ہے، اس میں طبی فائدہ بھی ہے کہ آلہ تناسل اور خصیوں کو دھونے سے مذی نکلنا بند ہو جاتی ہے۔" ختم شد
" تعليقات الشيخ ابن عثيمين على الكافي "

اس لیے راجح یہ ہے کہ مذی خارج ہونے کی صورت میں آلہ تناسل اور خصیوں کو دھونا ضروری ہے؛ کیونکہ اس بارے میں وارد حدیث صحیح ثابت ہے۔

جبکہ نماز کے صحیح ہونے کے بارے میں یہ ہے کہ چونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے ، اس لیے اس مسئلے میں دو اقوال میں سے کسی ایک کو اپنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، چاہے کوئی ذاتی تحقیق کی بنا پر کسی ایک موقف کو اپنائے یا کسی امام کے موقف کو تسلیم کرتے ہوئے ان کی بات پر عمل پیرا ہو۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب