ہفتہ 18 شوال 1445 - 27 اپریل 2024
اردو

کیا مخصوص جگہ کا خشک ہو جانا حیض سے پاک ہونے کی متفقہ علامت ہے؟

سوال

میرا سوال الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کی آخری رائے کے بارے میں ہے کہ آپ رحمہ اللہ زرد یا مٹیالے رنگ کے دھبوں کو مطلق طور پر حیض میں شمار نہیں کرتے تھے، تو میرا سوال یہ ہے کہ: آپ رحمہ اللہ اس حدیث کے بارے میں کیا موقف رکھتے ہیں جس میں ہے کہ خواتین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ڈبیا میں حیض کی زردی لگی ہوئی روئی رکھ کر بھیجا کرتی تھیں، اور پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ان سے کہا کرتی تھیں کہ جلد بازی نہ کریں تا آں کہ روئی بالکل صاف ہو۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا زردی کو حیض شمار کرتی تھیں، تو کیا آپ رحمہ اللہ اس حدیث کو ضعیف سمجھتے تھے؟؛ کیونکہ آپ رحمہ اللہ زردی یا مٹیالے رنگ کو حیض نہیں سمجھتے، یا اس موقف کی کوئی اور وجہ تھی؟ نیز حدیث کے آخر میں جو الفاظ ہیں کہ: طہر کے بعد زردی وغیرہ کو حیض کا حصہ شمار نہیں کیا جاتا تھا۔ تو کیا یہ اضافہ صحیح ثابت نہیں ہے؟ اگر ثابت نہیں ہے تو اس طرح حدیث عام ہو گی، تو کیا اس طرح زردی اور مٹیالہ پانی لازمی طور پر حیض میں شمار نہیں ہو گا؟ واضح رہے کہ میرے نزدیک یہ زردی اور مٹیالہ پانی حیض سے متصل ہو تو یہ حیض ہے، لیکن مجھے دلی اطمینان چاہیے، کیا علمائے کرام کا اس بات پر اجماع ہے کہ مخصوص جگہ کا خشک ہو جانا طہر کی علامت ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کا زرد اور مٹیالے پانی کے بارے میں جو آخری موقف تھا وہ یہ تھا کہ یہ دونوں چیزیں حیض نہیں ہیں چاہے یہ خون سے متصل پہلے یا بعد میں ہوں، جیسے کہ اس کی وضاحت سوال نمبر: (179069 ) کے جواب میں گزر چکی ہے۔

لیکن اگر یہ حیض کے دوران ہو، خون رکنے سے پہلے تو پھر یہ حیض میں شمار ہو گا۔

آپ رحمہ اللہ سے "اللقاء الشهري" (73/37) میں پوچھا گیا:
"فضیلۃ الشیخ! میں امید کرتا ہوں کہ آپ اس حوالے سے وضاحت فرما دیں؛ کیونکہ اس بارے میں کافی بحث و تمحیص ہو رہی ہے کہ: خون کے بعد جو مٹیالہ اور زرد پانی آتا ہے اس کا کیا حکم ہے؟ نیز عورت حیض سے کب پاک ہوتی ہے؟ حیض سے پاک ہونے کے لیے بالکل سفید رطوبت کا ہونا لازم ہے؟

تو آپ رحمہ اللہ نے جواب دیا: اس مسئلے میں لوگوں کا اختلاف ہے، اس بارے میں میری آخری رائے یہی ہے کہ: مٹیالے اور زرد رنگت والی رطوبت کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ہاں صرف وہی معتبر ہو گی جو حیض کے دوران ہو، یعنی: مثال کے طور پر: ایک عورت کی ماہواری 5 دن ہے، تو تیسرے دن اگر مٹیالہ اور زرد پانی دیکھے تو یہ حیض شمار ہو گا۔

لیکن اگر کسی عورت کو خون آنے سے پہلے زرد یا مٹیالہ پانی آتا ہے تو اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا جائے گا۔

اسی طرح ایک اور عورت حیض سے پاک ہو گئی اور خون رک گیا، لیکن زرد اور مٹیالہ پانی جاری رہا تو یہ بھی حیض نہیں ہے۔" ختم شد
زردی اور مٹیالہ پانی حیض نہیں ہے یہ ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف ہے، جبکہ چاروں فقہی مذاہب سمیت دیگر جمہور اہل علم کا موقف اس کے بالکل برخلاف ہے۔

مزید کے لیے دیکھیں: "المحلى" مسئلہ نمبر: 266، 269، اور اسی طرح: "موسوعة الطهارة" از : دبیان: (6/ 286)

دوم:

آپ رحمہ اللہ نے "بعد الطہر" کے اضافے کو کہیں پر ضعیف قرار دیا ہو، ہمیں ایسی کوئی جگہ نہیں ملی، البتہ آپ نے اس اضافے کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور اس کے صحیح ہونے کی صراحت بھی کی ہے، اور یہ اضافہ صحیح بھی ہے۔

جیسے کہ آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"طہر کے بعد مٹیالہ یا زرد پانی، رطوبت یا دھبے یہ سب کچھ حیض میں شامل نہیں ہے، اس لیے ان کی موجودگی میں نماز اور روزے سے نہیں روکا جائے گا، نہ ہی خاوند کو اپنی اہلیہ کے ساتھ تعلقات بنانے سے منع کیا جائے گا؛ کیونکہ یہ حیض نہیں ہوتا، جیسے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: (ہم زردی اور مٹیالے پن کو کچھ بھی شمار نہیں کرتی تھیں۔) اسے بخاری نے روایت کیا ہے اور اس کے آخر میں ابو داود نے ایک اضافہ بھی نقل کیا ہے کہ: "بعد الطہر" یعنی طہر کے بعد ہم زردی اور مٹیالے پن کو کچھ بھی شمار نہیں کرتی تھیں۔ اس اضافے کی سند بھی صحیح ہے۔" ختم شد
مجموع فتاوی ابن عثیمین: (11/ 281)

آپ رحمہ اللہ نے ایک اور مقام پر مزید کہا:
"ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا یہ کہنا کہ: " طہر کے بعد ہم زردی اور مٹیالے پن کو کچھ بھی شمار نہیں کرتی تھیں " اس بات کو ابو داود نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے، جبکہ اسی روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ نے "بعد الطہر" کے اضافے کے بغیر ذکر کیا ہے، تاہم امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر جو باب قائم کیا ہے اس میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے: "باب ہے: حیض کے علاوہ دیگر ایام میں زردی اور مٹیالے پن کے بارے میں۔"

چنانچہ صحیح بخاری کی شرح فتح الباری میں ہے کہ: یہ عنوان قائم کر کے امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی سابقہ حدیث کے ساتھ تطبیق کی طرف اشارہ کیا ہے، کہ اس حدیث میں ہے کہ: "یہاں تک کہ تم بالکل سفید رطوبت دیکھ لو" اور اس باب میں مذکور ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث دونوں میں تطبیق اس طرح ہو گی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب زرد اور مٹیالہ پن حیض کے ایام میں دیکھے، اور ام عطیہ رضی اللہ عنہا والی حدیث حیض کے علاوہ ایام میں زردی اور مٹیالہ پن دیکھنے پر محمول ہو گی۔ ختم شد
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی جس حدیث کی طرف اشارہ ہے اسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اس باب سے پہلے معلق بالجزم بیان کیا ہے کہ خواتین ان کے پاس ڈبیا بھیجا کرتی تھیں۔ " ختم شد(11/ 306)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اپنے آخری موقف کے بعد سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے قول کی توجیہ بیان کرتے ہیں کہ: بعد الطہر سے مراد، حیض کے خون کا رک جانا ہے، اس سے پہلے آپ رحمہ اللہ بعد الطہر سے مراد سفید رطوبت کا خارج ہونا لیتے تھے، یا مخصوص جگہ کا مکمل خشک ہو جانا مراد لیتے تھے۔

چنانچہ آپ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"حیض کا خون جس وقت منقطع ہو جائے اور خون کے بعد مٹیالہ یا زرد پانی آئے تو اسے کچھ بھی شمار نہیں کیا جائے گا، یعنی خون بند ہو جانے کے بعد اسے حیض قرار نہیں دیا جائے گا؛ کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَيَسْأَلُونَكَ عَنْ الْمَحِيضِ قُلْ هُوَ أَذًى ترجمہ: وہ حیض کے بارے میں آپ سے پوچھتے ہیں، آپ کہہ دیں: وہ تو گندگی ہے۔[البقرۃ: 222] اور گندگی سے مراد خون ہے۔

اب ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی حدیث میں ہے کہ: ہم زردی یا مٹیالے پن کو کچھ بھی شمار نہیں کرتے تھے۔ صحیح بخاری کی روایت میں ایسے ہے۔
جبکہ یہی روایت ابو داود میں ہے تو اس میں بعد الطہر کے الفاظ زیادہ ہیں، اور طہر تبھی حاصل ہوتا ہے جب خون رک جائے۔

اس بنا پر: ہم ایسی خاتون سے کہیں گے کہ: جب تک حیض یعنی خون دیکھے سات دن تک آئے، پھر اس کے بعد مٹیالہ یا زردی رنگت کا پانی خارج ہو تو ایسی خاتون حیض کا خون بند ہونے کے بعد غسل کر لے، یعنی سات دن کے بعد نہا لے، پھر نماز اور روزے کا اہتمام کرے، اور اگر اس کا خاوند ہو تو آپس میں جسمانی تعلق بھی قائم کر سکتے ہیں چاہے اسے زردی یا مٹیالے قطرے بھی جاری ہوں۔" ختم شد
اللقاء الشهري (36/ 22)

آپ رحمہ اللہ کی دلیل یہ بھی ہے کہ حیض ؛ خون ہوتا ہے، زرد ار مٹیالہ پن خون نہیں ہوتا۔ "اللقاء الشهري" (51/ 8)

جبکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا یہ مفہوم لیتے ہیں کہ: اس میں مذکور مٹیالہ اور زردی پن کا تعلق خون بند ہونے سے پہلے کے ساتھ ہے، جیسے ام عطیہ کی حدیث پر قائم صحیح بخاری کے باب کی وضاحت میں یہ چیز گزر چکی ہے۔

بہ ہر حال: اس مسئلے میں راجح موقف یہ ہے کہ: مٹیالہ پن اور زردی : حیض کے ایام میں حیض شمار ہوں گے، اسی کو فقہائے کرام "زمن الامکان" بھی کہتے ہیں، یعنی زردی یا مٹیالہ پانی حیض کی ابتدا میں حیض سے متصل ہو یا درمیان میں یا آخر میں خون کے بند ہونے کے بعد تو یہ سارے کا سارا ہی حیض ہے، یہ جمہور اہل علم کا موقف ہے، اسی مفہوم پر اجماع بھی نقل کیا گیا ہے۔

سوم:
اکثر فقہائے کرام کے ہاں طہر مخصوص جگہ خشک ہونے سے حاصل ہو جاتا ہے، صرف امام مالک رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ جس عورت کو سفید رطوبت خارج ہوتی ہو وہ خشک ہونے پر پاک نہیں ہو گی ۔

جیسے کہ ابو عمر دبیان "موسوعة الطهارة" (7/ 37) میں لکھتے ہیں:
"چوتھی مبحث: حائضہ کے پاک ہونے کی علامت:

ایک موقف یہ ہے کہ: حیض کے ختم ہونے پر پاک ہو جائے گی، چاہے اس کے بعد سفید رطوبت خارج ہو یا نہ ہو، یہ حنفی، شافعی اور حنبلی موقف ہے۔

دوسرا موقف یہ ہے کہ: اگر عورت کو سفید رطوبت خارج ہوتی ہے تو اس وقت تک طہر نہیں ہو گا جب تک سفید رطوبت نہ دیکھ لے، اور اگر سفید رطوبت خارج نہیں ہوتی تو پھر اسے طہر خشک ہونے پر حاصل ہو جائے گا، یہی موقف امام مالک رحمہ اللہ سے مدونہ میں صراحت کے ساتھ منقول ہے۔

تیسرا موقف یہ ہے کہ: طہر کی دو علامتیں ہیں، ایک خشک ہونا، اور دوسری سفید رطوبت کا اخراج، اب عورت ان دونوں میں سے کوئی ایک علامت دیکھ لے یا پا لے تو اس کا طہر شروع ہو چکا ہے چاہے اس عورت کی طہر کی علامت سفید رطوبت والی ہو یا خشک ہونے والی۔ یہی موقف امام مالک کے شاگردوں میں سے ابن حبیب کا ہے۔

چوتھا موقف یہ ہے کہ: جب بھی سرخ خون کے اثرات [خون نہ ہو بلکہ خون کے اثرات ہوں۔ مترجم] نظر آئیں، یا گوشت دھوتے ہوئے جو رنگ پانی کا ہوتا ہے ویسا پانی نظر آئے ، یا زردی، یا مٹیالہ پن، یا سفید رطوبت، یا مکمل خشکی حاصل ہو جائے تو طہر شروع ہو چکا ہے۔ یہ ابن حزم رحمہ اللہ کا موقف ہے۔

تو اس سے درج ذیل اقوال سامنے آتے ہیں:
پہلا قول: صرف خشک ہونے کو معتبر سمجھا جائے گا۔

دوسرا قول: اگر عورت کو سفید رطوبت کا اخراج ہوتا ہے تو یہ خشک ہونے سے زیادہ معتبر ہے۔
تیسرا قول: خشک ہونا سفید رطوبت کے اخراج سے زیادہ معتبر ہے اگر عورت کو دونوں چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔

چوتھا قول: خشک ہونا اور سفید رطوبت کا اخراج دونوں ہی طہر کی علامات ہیں۔

پانچواں قول: جب بھی سرخ خون کے اثرات ہوں، جیسے گوشت دھوتے ہوئے جو رنگ پانی کا ہوتا ہے وہ نظر آئے، یا زردی، یا مٹیالہ پن، یا سفید رطوبت، یا مکمل خشکی حاصل ہو جائے تو طہر حاصل ہو چکا ہے۔"

پھر آگے چل کر کہا:
"ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ: اگر عورت کو سفید رطوبت کا اخراج ہوتا ہے تو یہ خشک ہونے سے زیادہ معتبر ہے۔
عیسی بن دینارؒ کا قول ہے کہ: خشک ہونے کے مقابلے میں سفید رطوبت کا اخراج رحم کے صاف ہونے کی زیادہ قوی دلیل ہے۔
اسی طرح حافظ ابن حجر کہتے ہیں: بسا اوقات دوران حیض بھی روئی خشک نکلتی ہے، تو دوران حیض جگہ خشک ہونے سے حیض منقطع نہیں ہوتا، جبکہ سفید رطوبت کا اخراج رحم کے مکمل صاف ہونے کی علامت ہوتی ہے۔" ختم شد

اور ایسی کوئی بات سلف صالحین سے منقول نہیں ہے کہ مکمل خشکی طہر کی علامت نہیں ہے، صرف امام مالک سے یہ بات مروی ہے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب