الحمد للہ.
اول:ڈرما رولر (derma roller)
ڈرما رولر (derma roller) چھوٹا سا آلہ ہے جو کہ شیونگ مشین جیسا ہوتا ہے، ممکن ہے سائز میں تھوڑا چھوٹا یا بڑا ہو، اس آلے کے ایک طرف پکڑنے کے لیے مٹھی بنی ہوتی ہے اور دوسری طرف ایک گھومنے والا گول ڈرم ہوتا ہے جس پر چھوٹی اور باریک سوئیاں ہوتی ہیں۔ ڈرما رولر (derma roller) کا سائز اس کے مطلوبہ استعمال کے مطابق مختلف ہوتا ہے، اور اسی طرح سوئیوں کا سائز اور تعداد بھی استعمال کے مطابق مختلف ہوتی ہے۔
عام طور پر سوئیوں کی لمبائی 0.2 ملی میٹر اور 1.5 ملی میٹر کے درمیان ہوتی ہے، اور بعض صورتوں میں یہ 3 ملی میٹر تک لمبی بھی ہو سکتی ہیں۔ سوئیوں کی لمبائی کا تعلق جلد کی اس گہرائی سے ہے جہاں تک سوئی کو پہنچانا مقصود ہو۔
یہ تو واضح ہے کہ چھوٹی سوئیاں بالکل بھی درد کا باعث نہیں بنتیں، لیکن 3 ملی میٹر کی سوئیاں صرف طبی نگرانی میں اور صرف بعض صورتوں میں کلینک میں استعمال کی جانی چاہییں۔ ایک ڈرما رولر (derma roller) پر سوئیوں کی تعداد 90-540 کے درمیان ہوتی ہے۔
ڈرما رولر (derma roller) کا بنیادی کام یہ ہے کہ جلد کی بیرونی تہہ کے خلیوں میں بہت چھوٹے چھوٹے زخم ہو جائیں۔ جس کے نتیجے میں جسم کی طرف سے ان زخموں کے علاج کے لیے تحریک پیدا ہوتی ہے، اور پھر چھید لگے ہوئے حصے میں خلیات کو زیادہ متحرک کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جب خلیے متحرک ہو جاتے ہیں، تو وہ مفید، پرورش بخش پروٹین تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں جو خلیوں کو مزید بڑھنے اور پھیلنے میں مدد دیتے ہیں، اور پھر جلد ڈھیلی ڈھالی کی بجائے چست اور تازہ ہو جاتی ہے" ختم شد
جلد کی صفائی کے لیے ڈرما رولر (derma roller) استعمال کرنے کا حکم
اس آلے کو جلد کی صفائی کے لیے استعمال کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس کا کوئی نقصان نہ ہو، کسی بھی نقصان سے بچنے کے لیے اسے استعمال کرنے کا صحیح طریقہ سمجھیں کہ اسے کس قسم کی جلد پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور اسی طرح اسے استعمال کرتے ہوئے کون سی ادویات استعمال کی جاتی ہیں، چنانچہ اس کے متعلق معالج سے مشورہ کر لیا جائے۔
اس کے جائز ہونے کی دلیل شریعت کا بنیادی اصول اباحت ہے؛ نیز اس آلے کے حرام ہونے کے لیے حرمت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اور اگر اسے حرام قرار دیا بھی جائے تو اس کے لیے اس کے استعمال کی وجہ سے نقصان ہونا ضروری ہے، چنانچہ جب نقصان نہیں ہے تو پھر اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔
صحابہ کرام کی بیویاں خوبصورتی اور چہرے کی تازگی کے لیے "ورس" نامی بوٹی کا ماسک لگاتی تھیں ۔
چنانچہ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: "ہم اپنے چہروں کی چھائیوں کے علاج کے لیے ورس [ہلدی] کا لیپ کیا کرتی تھیں" ابو داود: (311) مسند احمد: (26561) یہ الفاظ مسند احمد کے ہیں، اس حدیث کو البانیؒ نے حسن قرار دیا ہے۔
عراقی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"ورس: زرد رنگت والی ایک بوٹی ہے جو کہ یمن میں بہ کثرت پائی جاتی ہے، اس سے چہرے کے لیے لیپ [ماسک] بھی تیار کیا جاتا ہے۔"
ماخوذ از: "طرح التثريب" (5/ 49)
اسی طرح علامہ ازہری ابو منصور کہتے ہیں:
"اصمعی کہتے ہیں کہ: الغُمرَہ ، ورس یعنی ہلدی ۔ عربی میں کہا جاتا ہے: {غَمَرَ فلانٌ جاريتَه} یعنی جس وقت اپنی کنیز کے چہرے پر ہلدی وغیرہ کا لیپ کرے۔
لیث کہتے ہیں: غمرہ [ابٹن جیسا آمیزہ جس سے جلد میں نکھار آ جاتا ہے] جس سے دلہن کا لیپ کیا جاتا ہے۔
ابو سعید کہتے ہیں : اس غمرہ نامی ابٹن میں دودھ اور کھجور کا استعمال کیا جاتا ہے اور پھر لڑکی کے چہرے اور ہاتھوں پر اس کا لیپ کیا جاتا ہے جس سے جلد میں تازگی آ جاتی ہے۔" ختم شد
"تهذيب اللغة" (8/ 128)
ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"چھائیوں کو دور کرنے والی ادویات اور خاوند کے لیے چہرے کو خوبصورت بنانے والی دوائیوں کے بارے میں مجھے کوئی حرج محسوس نہیں ہوتا، انہیں استعمال کیا جا سکتا ہے۔" ختم شد
"أحكام النساء" ص: 160
واللہ اعلم