اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

کسی شخص کو صحابہ سے تشبیہ دینے کا حکم

سوال

کیا یہ جائز ہے کہ میں کسی بھی شخص کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام سے تشبیہ دوں؟

جواب کا خلاصہ

کسی شخص کو کسی ایک صحابی کے ساتھ تشبیہ اخلاق، افعال، اور کردار کے حوالے سے دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، ایسی کوئی بات بھی محسوس نہیں ہوتی کہ جس سے ممانعت عیاں ہو، کیونکہ یہ تشبیہ من کل الوجوہ نہیں ہے۔

الحمد للہ.

شانِ صحابہ

یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ صحابہ کرام کی شان بہت عظیم ہے، ان کا مقام بہت بلند ہے، اللہ تعالی نے صحابہ کرام کی تعریف بیان فرمائی ہے، انہیں بہترین صفات اور اعلی ترین اخلاق سے موصوف قرار دیا، جیسے کہ فرمانِ باری تعالی ہے:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
 ترجمہ: ایسے مہاجر اور انصار جنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور پھر وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی اتباع کی، اللہ ان سب سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے۔ اللہ نے ان کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں۔ وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے [التوبہ: 100]

اسی طرح فرمایا:
فَالَّذِينَ هَاجَرُوا وَأُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأُوذُوا فِي سَبِيلِي وَقَاتَلُوا وَقُتِلُوا لَأُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأُدْخِلَنَّهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ثَوَابًا مِنْ عِنْدِ اللهِ وَاللهُ عِنْدَهُ حُسْنُ الثَّوَابِ
 ترجمہ: جن لوگوں نے ہجرت کی اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور میری راہ میں انہیں دکھ دئیے گئے، نیز جن لوگوں نے جہاد کیا اور شہید ہوگئے۔ میں ضرور ان کی برائیاں ان سے دور کر دوں گا اور ایسے باغات میں ضرور داخل کروں گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ یہ اللہ کی طرف سے ان کا صلہ ہے۔ اور اللہ کے ہاں جو بدلہ ہے وہ بہت ہی اچھا بدلہ ہے۔ [آل عمران: 195]

ایک اور مقام پر فرمایا:
لِلْفُقَرَاءِ الْمُهَاجِرِينَ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وَيَنْصُرُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: (یہ مال)ان محتاج مہاجرین کے لیے ہے جو اپنے گھروں، اور اپنی جائیدادوں سے نکالے گئے۔ وہ اللہ کا فضل اور اس کی رضا چاہتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں۔ یہی لوگ راست باز ہیں [8] اور (ان لوگوں کے لیے بھی) جو ان (کے آنے) سے پہلے ایمان لا چکے تھے اور یہاں (دارِ ہجرت میں) مقیم تھے۔ جو بھی ہجرت کر کے ان کے پاس آئے وہ اس سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ (مال)انہیں دیا جائے وہ اپنے دلوں میں اس کی کوئی حاجت نہیں پاتے اور ان (مہاجرین) کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقہ سے ہوں اور جو شخص اپنے نفس کی حرص سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔ [الحشر: 8 - 9]

ایسے ہی فرمایا:
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذَلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
 ترجمہ: محمد -صلی اللہ علیہ و سلم -اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر تو سخت (مگر) آپس میں رحم دل ہیں۔ تم جب بھی دیکھو گے انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے (کثرت) سجدہ کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر امتیازی نشان موجود ہیں۔ ان کی یہی صفت تورات میں بیان ہوئی ہے اور یہی انجیل میں ہے جیسے ایک کھیتی ہو جس نے اپنی کونپل نکالی پھر اسے مضبوط کیا، پھر وہ موٹی ہوئی اور اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی (اس وقت وہ) کسانوں کو خوش کرتی ہے۔ تاکہ کافروں کو ان کی وجہ سے غصہ دلائے۔ اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ [الفتح: 29]

ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "اللہ تعالی نے لوگوں کے دلوں کو دیکھا تو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو چنا اور انہیں اپنے پیغامات کے ساتھ مبعوث فرمایا، آپ کا انتخاب اللہ تعالی نے اپنے علم کی بنیاد پر کیا، پھر آپ کے بعد لوگوں کے دلوں کو دیکھا تو اپنے نبی کے لیے صحابہ منتخب فرمائے اور انہیں اپنے دین کے حامی بنایا اور اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے وزیر بنایا۔"
مسند طیالسی: (1/ 199)، مسند احمد: (3600)

صحابہ کرام جیسی عادات اختیار کرنے کا حکم

صحابہ کرام جیسا بننے کی کوشش کرنے میں بڑی خیر ہے اور یہ بہت بڑی نعمت ہے، جیسے کہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: "تم میں سے کوئی کسی کی اقتدا کرنا چاہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام کی اقتدا کرے؛ کیونکہ وہ پوری امت میں سب سے زیادہ نیک دل والے، گہرے علم والے، بہت کم تکلف کرنے والے، ٹھوس ہدایت والے، اور بہترین حالت والے ہیں، صحابہ کرام کی جماعت ایسی جماعت ہے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کے لیے چنا، اس لیے صحابہ کرام کی فضیلت کا اعتراف کرو، ان کے نقش قدم پر چلو؛ کیونکہ وہ مستقیم ہدایت پر گامزن تھے۔" ختم شد
"جامع بيان العلم" (2/ 947)

حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ کرام پوری امت میں سب سے زیادہ نیک دل والے، گہرے علم والے، سب سے کم تکلف کرنے والے تھے، صحابہ کرام کی جماعت ایسی جماعت ہے جنہیں اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت ، اور اقامت دین کے لیے چنا، اس لیے اپنے اخلاق اور طور طریقہ صحابہ کرام جیسا بناؤ؛ کیونکہ رب کعبہ کی قسم ہے وہی مستقیم ہدایت پر تھے۔" ختم شد
الشریعہ، از علامہ آجری: (4/ 1685)

کسی شخص کو صحابہ کے ساتھ تشبیہ دینے کا حکم

کسی شخص کو اس کے اخلاق، عمل یا جسمانی شکل و صورت وغیرہ میں کسی صحابی کے ساتھ تشبیہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے، نہ ہی اس میں ممانعت کی کوئی وجہ عیاں ہے؛ کیونکہ یہ تشبیہ من کل الوجوہ نہیں ہے، اس لیے اگر آپ کسی شخص کو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ جیسا بہادر کہیں، یا سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ جیسا عالم کہیں، یا کسی اور صحابی جیسا طاقتور کہیں، یا سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ جیسا خوب صورت آواز والا کہیں تو یہ جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔

بلکہ اگر ایسی تشبیہ صحابہ کرام سے بھی بڑی شخصیت کے ساتھ دے دی جائے یعنی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تو تب بھی تشبیہ دینے سے منع نہیں کیا جائے گا؛ بشرطیکہ تشبیہ سے مراد نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی بعض ایسی عملی، اخلاقی صفات ہوں جو خصائص نبوت میں سے نہ ہوں۔

چنانچہ ایسی تشبیہ متعدد صحابہ کرام سے منقول ہے۔

جیسے کہ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما کی تھی" بخاری: (3752)

اسی طرح سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں کہا: (آپ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مشابہت سب سے زیادہ تھی۔) بخاری: (3748)

ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تابعین میں سے ایک شخص جس کا نام کابس بن ربیعہ سامی تھا ۔۔۔ ان کی شکل و صورت نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے بہت زیادہ ملتی تھی، تو انہیں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے پاس بلایا اور ان کے ماتھے پر بوسہ دیا، اور انہیں بہت نوازا۔ یہی وجہ تھی کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ جب انہیں دیکھتے تو ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔" ختم شد
"كشف المشكل من حديث الصحيحين" (1/42)

بسا اوقات تشبیہ کردار اور اخلاقیات میں بھی ہو سکتی ہے۔

جیسے کہ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ:
"ابن ام معبد رضی اللہ عنہ چال چلن، کردار، اور سیرت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتے تھے" بخاری: (6097) ابن ام معبد سے مراد سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔

اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ:
"میں نے سیدہ فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بڑھ کر کسی کو چال چلن، کردار ،سیرت اور اٹھنے بیٹھنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ مشابہت رکھنے والا نہیں پایا۔" ترمذی: (3762) نے اسے روایت کیا ہے اور کہا یہ حدیث حسن صحیح ہے، نیز البانی نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔

عربی الفاظ: { دَلًّا، وَسَمْتًا، وَهَدْيًا } یہ مترادفات اور قریب المعنی الفاظ ہیں، ان کا مطلب ہے شکل و صورت، طریقہ، خوبصورت وغیرہ، مزید تفصیلات کے لیے "عون المعبود" (14/ 87) کا مطالعہ کریں۔

"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان مظاہر کی طرف اشارہ کیا ہے جو انسان پر خشوع اور اللہ تعالی کے تواضع اختیار کرنے پر عیاں ہوتے ہیں، اسی طرح { هَدْيًا} سے سکینت اور وقار جیسی اعلی صفات مراد لی ہیں، جبکہ { دَلًّا } سے اعلی اخلاق اور بہترین گفتگو مراد لی ہے۔ " ختم شد
"مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح" (7/2969)

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب