جمعرات 20 جمادی اولی 1446 - 21 نومبر 2024
اردو

زیر تعمیر اپارٹمنٹ خریدنے کے لیے پیشگی ادائیگی کا حکم اور اس سرمایہ کاری سے منافع لینے کا حکم۔

سوال

میں نے ایک رئیل اسٹیٹ کمپنی کو زیر تعمیر اپارٹمنٹ خریدنے کے لیے پیشگی ادائیگی کر دی ہے جو کہ مجھے دو سال کے بعد ملے گا، اور کمپنی رئیل اسٹیٹ یونٹ کی تعمیر کے دوران گاہک کی طرف سے ادا کی گئی ایڈوانس پیمنٹ پر مالی منافع ادا کرتی ہے، کیا میرے تعمیر ہونے والے مکان کی دیکھ بھال کے اخراجات کے طور پر کمپنی کو  پیشگی ادائیگی کرنا اور منافع وصول کرنا جائز ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

زیر تعمیر مکان خریدنے کا معاہدہ کرنا جائز ہے، اگر اسے اس طرح بیان کیا جائے جس سے جہالت ختم ہو اور تنازعات پیدا نہ ہوں، اور اسے عقدِ استصناع کہا جاتا ہے۔ اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (136921) کا جواب ملاحظہ کریں۔  

دوم:
عقد ہو جائے تو پیشگی ادا کیا گیا مال کمپنی کی ملکیت  بن جائے گا؛ کیونکہ یہ مال خریدی گئی چیز کی قیمت کا حصہ ہے۔

اس بنا پر: اس رقم پر جو بھی فائدہ ہو گا وہ کمپنی کا ہو گا، اور کمپنی ہی اس کی زکاۃ وغیرہ ادا کرے گی، اور اگر فرض کر لیا جائے کہ کمپنی اسے کسی سودی بینک میں رکھوا دے گی تو پھر بھی آپ پر کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ یہ رقم اب آپ کی ملکیت سے نکل چکی ہے۔

سوم:
اگر کمپنی آپ کو ایڈوانس ادا شدہ رقم کے منافع میں سے کچھ دیتی ہے تو آپ یہ منافع  نہیں لے سکتے؛ کیونکہ مشروط منافع یا طے شدہ منافع ایڈوانس ادا شدہ رقم کی کیفیت کو  مبہم بنا دے گا۔ [کہ یہ آیا رقم  قرض تھی یا سرمایہ کاری تھی، یا خریدی گئی چیز کی قیمت تھی؟۔ مترجم]

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فتاوی کبری: (4/39) میں کہتے ہیں:
"ایسے حیلوں سے روکنا ہی قطعی طور پر صحیح  موقف ہے؛ کیونکہ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (ایک ہی لین دین میں قرض اور فروختگی حلال نہیں ہے۔  ایک خریداری میں دو شرطیں جائز نہیں ہیں۔  جب تک ذمہ دار نہ بنے اس وقت تک منافع  کا حقدار نہیں ہو گا۔ اور جو چیز آپ کے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہیں ۔) اس حدیث کو پانچوں ائمہ کرام: امام احمد، ابو داود، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی کہتے ہیں: یہ روایت حسن صحیح ہے۔  چنانچہ جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے منع فرما دیا کہ قرضہ فراہم کرتے ہوئے بیع  کرنا جائز نہیں ہے، لہذا اگر کوئی قرضہ فراہم کرتے ہوئے بیع کی جگہ ؛ کرایہ  داری کا معاملہ کرتا ہے تو یہ بھی قرضے کے ساتھ بیع ہو گا یا اس جیسا شمار ہو گا۔

کوئی بھی عقدِ تبرع جس میں بیع اور کرایہ داری شامل ہو، مثلاً: ہبہ، عاریہ، عریہ، مساقاۃ  اور مزارعہ وغیرہ میں طرفداری کرنا  بھی قرض کی طرح ہی ہو گا۔

حدیث کے مفہوم کا خلاصہ یہ ہے کہ: عقدِ معاوضہ اور عقد تبرع کو یکجا نہ کیا جائے؛ کیونکہ یہاں عقدِ تبرع  ؛ در حقیقت عقدِ معاوضہ کی وجہ سے ہے، عقدِ تبرع تنہا کچھ نہیں ہے۔ تو اس طرح عقدِ تبرع بھی عقدِ معاوضہ کا حصہ بن جائے گا۔ جب یہ واضح ہو گیا کہ یہ عقدِ تبرع میں عوض نہیں ہوتا تو پھر یہ بھی واضح ہو گیا کہ بائع و مشتری نے دو مختلف  چیزوں [عقد تبرع اور عقد معاوضہ]کو یکجا کر لیا ہے؛ چنانچہ اگر کوئی شخص کسی کو ایک ہزار درہم  قرض دے، اور یہی قرض فراہم کنندہ 500 والی چیز قرض لینے والے کو 1000 میں فروخت کرے تو یہ دکاندار ایک ہزار قرض دینے کے لیے تبھی تیار ہوا ہے جب اس سے چیز انتہائی مہنگے داموں گاہک نے خریدی ہے، اور یہ گاہک بھی  اس چیز کو انتہائی مہنگے داموں اسی لیے خرید رہا ہے کہ یہاں ہدف 1000 درہم کا قرض ہے۔ اس لیے یہاں بیع صرف ہزار ہی کی نہیں ہو رہی نہ ہی صرف قرض دیا جا رہا ہے بلکہ یہاں تو اسے ہزار درہم اور 500 کی چیز 2000 درہم میں دی جا رہی ہے۔" ختم شد

چہارم:

اگر آپ کا اس کمپنی سے معاہدہ نہیں ہوا، صرف وعدہ ہی ہوا ہے، اور پیشگی ادائیگی صرف اس لیے ہے کہ خریدار کی سنجیدگی حتمی ہو، تو پھر آپ اس چیز کی اجازت نہیں دے سکتے کہ سودی لین دین میں سرمایہ کاری  کی جائے، اور اگر کمپنی کی جانب سے سودی سرمایہ کاری کرنے پر اصرار ہو  تو بھی آپ ان کے ساتھ معاہدہ نہ کریں؛ کیونکہ مال آپ کا ہے اور کمپنی آپ کی وکیل بن کر کام کرے گی تو اس طرح آپ کو بھی سودی لین دین کا گناہ پہنچے گا اگر کمپنی اسے سودی لین دین میں استعمال کرے گی۔

ان تفصیلات کے بعد، راجح موقف اور ہماری ویب سائٹ پر مفتی بہ قول یہ ہے کہ: خریداری کے محض وعدے کے مرحلے میں "بیعانہ" وصول کرنا جائز نہیں ہے۔

اس بارے میں مزید کے لیے آپ سوال نمبر: (229091 ) کا جواب ملاحظہ کریں۔  

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب